35

روس کے ہائپرسونک بیلسٹک میزائل حملے کے بعد نیٹو اور یوکرین کے ہنگامی مذاکرات

برسلز (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو اور یوکرین، روس کی جانب سے یوکرین پر ایک نئے تجرباتی ہائپرسونک بیلسٹک میزائل داغے جانے کے بعد منگل کو ہنگامی مذاکرات کر رہے ہیں۔

یوکرین کے ایک وسطی شہر پر روس کے نئے میزائل کے حملے سے 33 ماہ سے جاری جنگ کی شدت اور بڑھ گئی ہے۔

خبر رساں ادارے “ایسو سی ایٹڈ پریس” کے مطابق پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے جمعہ کو کہا کہ تنازع “فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہا ہے” اور “بہت ڈرامائی جہتیں اختیار کر رہا ہے۔”

روسی حملے کے بعد یوکرین کی پارلیمنٹ کا اجلاس منسوخ کر دیا گیا تھا کیونکہ جمعرات کو روسی شہر ڈنیپرو میں ایک فوجی تنصیب پر حملے کے بعد سکیورٹی سخت کر دی گئی تھی۔

روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے مغرب کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے “اورشینک” میزائل کے ساتھ حملہ کیف کی جانب سے امریکی اور برطانوی طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے استعمال کا بدلہ تھا۔

یہ میزائل روسی سرزمین میں گہرائی تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

پوٹن نے دعویٰ کیا کہ مغربی فضائی دفاعی نظام نئے روسی میزائل کو روکنے کے لیے بے بس ہو گا۔

یوکرین کے فوجی حکام نے بتایا کہ ڈنیپرو کو نشانہ بنانے والا میزائل 11 میک کی رفتار تک پہنچ گیا اور وہ چھ غیر جوہری ہتھیاروں سے لیس تھا جن میں سے ہر ایک نے چھ چھوٹے بارودی ہتھیار چھوڑے۔

جمعے کو فوجی اور ہتھیاروں کی صنعت کے حکام سے بات کرتے ہوئے، پوٹن نے کہا کہ روس مزید شینک میزائیل بنانا شروع کر رہا ہے۔

روسی صدر نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا “دنیا میں کسی کے پاس ایسا ہتھیار نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا،”جلد یا بدیر دوسرے سرکردہ ممالک بھی انہیں حاصل کر لیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ ترقی کے مراحل میں ہیں۔”

تاہم، انہوں نے کہا، “ہمارے پاس اب یہ نظام ہے۔ اور یہ اہم ہے۔”

امریکی محکمہ دفاع کی ڈپٹی پریس سکریٹری سبرینا سنگھ نے تصدیق کی کہ روس کا جمعرات کو استعمال کیا جانے والا میزائل بین البراعظمی بیلسٹک میزائل قسم کا درمیانی فاصلے تک مار کرنے والا ایک نیا تجرباتی میزائل تھا۔

پینٹاگان کی ترجمان سنگھ نے کہا کہ “یہ نئی قسم کی مہلک صلاحیت تھی جسے میدان جنگ میں لایا گیا تھا، لہذا یہ یقینی طور پر تشویشناک تھا۔”

امریکی صدر نے حال ہی میں یوکرین کو امریکی ساختہ (اے ٹی سی ایم ایس) لانگ رینج میزائل استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔

صدر بائیڈن نے یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا تھا جب شمالی کوریا نے اپنے 10 ہزار فوجی یوکرین جنگ میں حصہ لینے کے لیے روس بھیجے تھے۔

روس کے یوکرین پر حملے کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ کے ایک ہزار دن مکمل ہو چکے ہیں اور اس دوران اب تک ہزاروں افراد کی جانیں جا چکی ہیں جب کہ لاکھوں افراد بے گھر اور کئی شہر ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں