154

فوجیں لڑائیاں لیکن معشتیں جنگیں جیتتی ہیں، نیٹو عہدیدار

برسلز (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے) مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار نے کاروباری اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ کے وقت کے منظر نامے کے لیے تیار رہیں اور اپنی مصنوعات کی پیداوار اور ترسیل کے نظام کو اس طرح ترتیب دیں کہ روس اور چین جیسے ممالک سے بلیک میلنگ کا خطرہ کم ہو سکے۔

نیٹو کی ملٹری کمیٹی کے ڈچ سربراہ ایڈمرل روب باؤر نے برسلز میں کہا، ”اگر ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو، تمام اہم خدمات اور سامان کی ترسیل میسر رہے گی، تو یہ ہماری ڈیٹرنس کا ایک اہم حصہ ہے۔‘‘

تھنک ٹینک یورپی پالیسی سینٹر کے ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ڈیٹرنس یعنی دفاع کو صرف فوجی صلاحیت سے بہت آگے کا ایک معاملہ قرار دیا۔ ان کے بقول جنگ میں تمام دستیاب آلات استعمال ہو سکتے ہیں اور ہوں گے۔

باؤر نے کہا، ”ہم تخریب کاری کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں دیکھ رہے ہیں اور یورپ کو اس کا تجربہ توانائی کی فراہمی کے انفراسٹرکچر کے ساتھ ہونے والی تخریبی کارروائیوں کی صورت میں ہوا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،”ہم نے سوچا کہ ہمارا گیسپروم کے ساتھ معاہدہ ہے لیکن ہم نے دراصل مسٹر پوٹن کے ساتھ ایک معاہدہ کر رکھا تھا اور یہی صورتحال چین کے زیر ملکیت انفراسٹرکچر اور سامان کے ساتھ بھی ہے۔ ہمارا اصل میں معاہدہ (چینی صدر) شی (جن پنگ) کے ساتھ ہے۔‘‘

باؤر نے سپلائی کے لیے مغربی ممالک کے چین پر انحصار کا ذکر بھی کیا، جس کے تحت زمین سے حاصل ہونے والی تمام نایاب دھاتوں کا 60 فیصد چین میں پیدا ہوتا ہے اور 90 فیصد کو وہاں پراسس کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سکون آور ادویات، اینٹی بائیوٹکس، سوزش کم کرنے اور بلڈ پریشر کنٹرول کرنے والی ادویات کے کیمیائی اجزاء بھی چین سے آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”اگر ہمیں لگتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کبھی بھی اس طاقت کو استعمال نہیں کرے گی تو ہم بھولے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے کاروباری رہنماؤں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ جو تجارتی فیصلے کرتے ہیں، وہ اسٹریٹجک ہوتے ہیں۔‘‘

باؤر کا کہنا تھا، ”کاروباروں کو جنگ کے وقت کے منظر نامے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے اور اس کے مطابق اپنی پیداوار اور تقسیم کی لائنوں کو ایڈجسٹ کرنا چاہیے۔ کیونکہ فوجیں لڑائیاں جیتتی ہے لیکن معیشتیں جنگیں جیتتی ہیں۔‘‘

روسی فوجی تعداد میں اضافہ

نیٹو کی ملٹری کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ روس بری فوج کی تعداد فروری 2022 میں یوکرین پر حملے کے مقابلے میں اب بڑھ چکی ہے تاہم باؤر کے بقول ان کا معیار کم ہو گیا ہے۔ انہوں نے روسی فوجی سازوسامان کی حالت اور اس کے فوجیوں کی تربیت کی سطح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”ان افواج کا معیار گر گیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ”اس وقت روس ہمارے لیے فروری 2022 جیسا خطرہ نہیں ہے، اس لیے ہمارے پاس خود کو تیار کرنے کے لیے تھوڑا وقت ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب دفاعی صنعت میں سرمایہ کاری بڑھانا ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں