کوئٹہ (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی/رائٹرز/ڈی پی اے) شورش زدہ جنوب مغربی پاکستانی صوبے بلوچستان میں جمعہ کے روز کان کنوں کو لے جانے والی ایک گاڑی سڑک کنارے نصب بم کے زد میں آگئی جس میں کم از کم گیارہ افراد ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہو گئے۔
ایک سینیئر سرکاری اہلکار شہزاد زہری نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’ہرنائی ضلعے میں ایک حملے میں دس کان کن مارے گئے۔‘‘ لیکن خبر رساں ادارے روئٹرز نے حکومتی اہلکاروں کے حوالے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد گیارہ بتائی ہے۔
ہرنائی ضلعے کے ایک اور سینیئر سرکاری اہلکار سلیم ترین نے اے ایف پی کو بتایا کہ مزدور کام کی جگہ سے بازار کی طرف خریداری کے لیے جا رہے تھے کہ ان کی گاڑی نشانہ بنی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ دیسی ساختہ بم کا دھماکا تھا۔
ہرنائی کے ڈپٹی کمشنر ولی کاکڑ نے قبل ازیں کہا تھا کہ حملے میں نو افراد ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہوئے۔ بتایا گیا تھا کہ متاثرہ افراد کو ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے اور افسران واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ زیادہ تر متاثرین کا تعلق ملک کی شمال مغربی وادی سوات اور دیگر علاقوں سے تھا۔
حملے کی مذمت
ایک بیان میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس حملے کی مذمت کی اور ”ملک سے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے فعال طور پر کام کرنے کے اپنے عزم‘‘ کا اعادہ کیا۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور صوبائی حکام نے بھی الگ الگ بیانات میں حملے کی مذمت کی ہے اور پولیس اور مقامی حکام کو حملہ کرنے والوں کا سراغ لگا کر گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نےحملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ”معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے والے درندے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ”ہم دکھ کی اس گھڑی میں سوگوار خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘
بلوچستان حکومت کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ شواہد اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔ ”ابتدائی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دھماکہ خیز مواد روڑ کنارے نصب تھا۔‘‘
حملے کا شبہ بی ایل اے پر
اگرچہ فی الحال کسی گروپ یا تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم پاکستانی حکومت ماضی میں اس طرح کے حملوں کے لیے بی ایل اے کو مورد الزام ٹھہراتی رہی ہے۔
تیل اور معدنیات سے مالا مال بلوچستان میں طویل عرصے سے شورش جاری ہے۔ جبکہ حالیہ مہینوں میں بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
جنوری کے اواخر میں بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگوچر میں عسکریت پسندوں سے جھڑپ میں 18 فوجیوں کی جان گئی تھی جبکہ 12 عسکریت پسند مارے گئے۔ یہ ایک ہی دن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر سب سے مہلک حملہ تھا۔
اس حملے سے چند روز قبل ہی 27 اور 28 جنوری کی درمیانی شب بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے تحصیل گلستان میں عسکریت پسندوں نے ایف سی کی ایک چوکی پر خودکش حملہ کیا تھا، جس میں دو فوجیوں کی جان گئی جبکہ جھڑپ کے دوران دو خوکش حملہ آوروں سمیت پانچ عسکریت پسند مارے گئے۔
اسی طرح پانچ جنوری کو حکام کے مطابق بلوچستان کے شہر تربت کے قریب عسکریت پسندوں کے ایک بم دھماکے میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکاروں سمیت کم از کم چھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
ان حملوں میں سے بیشتر کی ذمہ داری علیحدگی پسند بلوچ جنگجو تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔
اسلام آباد میں قائم ایک تجزیہ کار گروپ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق، دہشت گردانہ حملوں کے لحاظ سے گزشتہ سال پاکستان کے لیے ایک دہائی میں سب سے مہلک رہا۔ رپورٹ کے مطابق 2024 کے دوران پاکستانی سکیورٹی فورسز پر عسکریت پسندوں نے 444 حملے کیے جن میں پولیس یا سکیورٹی فورسز کے 685 ارکان سمیت 1,500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق عسکریت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں خیبر پختونخوا کے بعد سب سے زیادہ جانی نقصان بلوچستان میں ہوا۔ ان حملوں میں تحریک طالبان پاکستان اور اس سے منسلک گروہ پیش پیش رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت افغان طالبان پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ افغان سرزمین سے حملے کرنے والے عسکریت پسندوں کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں لیکن طالبان ان الزامات کو رد کرتے ہیں۔