لوئر کرم میں مقامی آبادی کا انخلا جاری، ہم نے کیمپ لگا دیے ہیں: ڈی سی ہنگو

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) ضلعی انتظامیہ لوئر کرم کی طرف سے علاقہ خالی کرنے کی ڈیڈلائن انیس مارچ کو ختم ہوگئی ہے اور اب تک ایک ماہ میں آٹھ سو فیملی اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں کو منتقل ہوگئے ہیں۔

اس سے پہلے 19 فروری کو لوئر کرم کے چار دیہات خالی کرنے کا حکم دیا گیا تھا جس کے بعد گزشتہ ہفتے لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے اعلانات کیے گئے کہ 19 مارچ تک علاقہ خالی کرنے کی آخری بار اطلاع دی جاتی ہے کہ علاقہ خالی کریں۔

جن علاقوں کو خالی کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ان میں بگن، اوچت کلے، ڈاڈکمر اور مندوری شامل تھے۔

ضلعی انتظامیہ کے اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جمعرات کی صبح تک جو رجسٹریشن کی گئی ہے اس کے مطابق آٹھ سو کے قریب فیملی علاقہ چھوڑ کر جا چکی ہیں جبکہ اب بھی لوگ آ رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ فوج کی طرف سے گمن چیک پوسٹ پر رجسڑیشن ڈیسک قائم کیا گیا ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے چھپری چیک پوسٹ پر رجسٹریشن ڈیسک قائم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ متاثرین کے لیے دو مقام پر رہائش کی سہولت قائم کی گئی ہے تو ہم ابھی تک وہاں کسی فیملی نے حالیہ بے دخلی کے بعد رجسٹریشن نہیں کی ہے۔

ڈاڈ کمر سے تعلق رکھنے والے شکیل بھی دو دن پہلے اپنا علاقہ چھوڑ کر ٹل کے علاہ میں آگئے ہیں۔

شکیل کے مطابق ڈاڈ کمر کے علاقے میں اسی کے قریب مکانات ہیں جس میں اکثر گھروں میں دو یا تین فیملی رہائش پذیر ہیں سب علاقہ چھوڑ کر نکل گئے ہیں صرف گھروں میں ایک یا دو مرد رہ گئے ہیں تاکہ پیچھے چھوڑے ہوئے سامان کی حفاظت کی جا سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب آخری بار حکومت نے پانچ دن میں علاقہ چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا تو اس کے بعد بڑی تعداد میں فیملیز دوسرے شہروں کے لیے روانہ ہو گئی ہیں۔ ان کے مطابق جس کا جو ضرورت کا سامان تھا وہ ساتھ لیا باقی سب کچھ گھروں میں ہی رہ گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میرے اپنے پانچ جانور گھر میں رہ گئے ہیں، استطاعت نہیں کہ انھیں ساتھ لا سکوں۔ ہمسایہ میں ایک آدمی کو کہا کہ اپنے جانور کے ساتھ میرے جانوروں کی دیکھ بھال بھی کریں۔‘ انھوں نے کہا کہ رمضان کا مہینہ ہے مشکل ہے بہت ٹل میں ایک کمرہ کا مکان کرایہ کا لیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر ہنگو گوہر وزیر نے بی بی سی بات کرتے ہوہے بتایا کہ انتظامیہ نے ٹل گرلز ڈگری کالج میں تین ماہ سے زائد عرصہ سے کئمپ قائم کیا ہوا ہے، جس میں سو کے قریب فیملیز موجود ہیں۔

اسی طرح ہنگو کے رئیسان کے علاقے میں تین سو افراد پر مشتمل کیمپ قائم ہے وہاں پر اہل تشیع کی کمیونٹی کے لوگ موجود ہیں۔

گوہر وزیر کا کہنا ہے کہ حالیہ نقل مکانی میں سے کسی بھی فیملی نے قائم کردہ کیمپ میں رپورٹ نہیں کیا۔ انتظامیہ نے سرائے کے ایریا میں مستقل کیمپ قائم کیا ہے وہاں ہم نے گراؤنڈ میں چند ٹینٹس اور باقی سامان لگایا ہے لیکن جیسے ہی تعداد بڑھے گی اسی حساب سے انتظامات تیار ہیں۔

بحالی ویلفئیر آرگنائزیشن لوئر کرم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے علاقے میں جاری یکطرفہ آپریشن کو فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

آرگنائزیشن کے صدر خیالی اورکزئی کا کہنا تھا کہ اس طرح کے آپریشن سے حالات گھمبیر ہونے کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اس رمضان میں لوگوں کو گھروں سے زبردستی نکالے جا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اس سے پہلے سنٹرل کرم کنڈالی بابا میں لوگوں کو گھروں کو ایک گھنٹے کے سرچ آپریشن کے بہانے خالی کرانے کو کہا تھا لیکن سرچ کے بہانے ان کے گھروں کو مکمل طور پر جلائے گئے۔‘

بگن سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد ریحان نے بتایا کہ یہ تیسری بار ہے کہ آپریشن کا اعلان کیا گیا ہے حالانکہ ایک بار اسلحہ جمع کرنے اور دوسری بار سرچ آپریشن کے نام پر آپریشن کیا گیا۔

اب ایک دم ایک ہفتے کا نوٹس دیکر علاقہ خالی کرایا گیا جس کی ڈیڈ لائن 19مارچ تھی۔ ریحان کے مطابق بڑی تعداد میں لوگ گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ کیمپوں میں ابھی تک کوئی نہیں گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے علاقے کے لوگ تھوڑا سخت مزاج ہیں اس لیے وہ کیمپوں کے بجائے کرایہ کے گھروں یا رشتہ داروں کے ہاں ٹھہرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘

اس سے پہلے ڈپٹی کمشنر ہنگو گوہر زمان وزیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا ’اگر کرم ایجنسی میں کچھ ہوتا ہے توظاہر سی بات ہے پہلا پڑاؤ ہنگو ہی بنے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پہلے بگن میں حالات جو خراب ہوئے تھے اس کی وجہ سے لگ بھگ 600 افراد پناہ گزین کے طور پر آئے ہیں جس میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جن کو ضلعی انتظامیہ شیلٹرراشن فراہم کررہی ہیں۔

ان کے مطابق ’اگر کوئی بڑی تعداد میں ٹی ڈی پی اپنے علاقے چھوڑ کر آتے ہیں تو ضلعی انتظامیہ نے ٹل کے مقام پر ایک جگہ کی نشاندہی کرکے دے دی ہے جو کہ محمد خواجہ کیمپ سابقہ افغان مہاجرین کیمپ ہے جس میں ٹیوب ویل اور دیگر وسائل بھی دستیاب ہیں۔ اب وہاں صرف وہاں ٹینٹ لگانے ہیں۔

یاد رہے کہ اس قبل ازیں 17 جنوری کو ڈپٹی کمشنر کرم کی جانب سے جاری ایک لیٹر میں پی ڈی ایم کو کہا گیا ہے کہ بگن، مندوری، چپری پڑا اور چھپری کے علاقوں سے ممکنہ طور پر 1079 خاندانوں اور 17626 افراد کے لیے کیمپوں انتظامات کیے جائیں۔

دوسری طرف کرم کے مختلف علاقوں میں بنکرز کی مسماری کا عمل بھی جاری ہے پولیس ترجمان کے مطابق اب تک پانچ سو سے زائد بنکرز کو گرایا جاچکا ہے اور مزید کے خلاف بھی کارروائی جاری ہے۔

ادھر کرم ایجنسی کے صدر مقام پاڑہ چنار میں بھی تین ہفتوں سے راستوں کی بندش کے خلاف دھرنا جاری ہے اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ مستقل بنیادوں پر راستہ کھولا جائے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں