داعش کے کارکنوں کے لئے خود کش جیکٹیں سینے والی لڑکی

لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) شام میں شدت پسند تنظیم داعش کے عروج کے دور میں مغربی ممالک سے سینکڑوں نوجوان لڑکے لڑکیاں فرار ہو کر شام گئے اور تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ ان میں ایک برطانوی لڑکی شمیمہ بیگم بھی تھی جس کے متعلق اب برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے ایک ہولناک انکشاف کر ڈالا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق برطانوی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان نے گزشتہ دنوں وزیراعظم تھریسامے اور ہوم سیکرٹری ساجد جاوید کو بریفنگ دی جس میں انہوں نے بتایا کہ ”شمیمہ بیگم داعش میں شمولیت کے بعدشدت پسند تنظیم کی اخلاقی پولیس میں کام کرتی رہی اور حملہ آوروںکے لیے خودکش جیکٹس سلائی کرتی رہی ہے۔“

رپورٹ کے مطابق 15سالہ شمیمہ بیگم 2015ءمیں دیگر دو لڑکیوں کے ساتھ برطانیہ سے فرار ہو کر شام گئی تھی جس کی عمر اب 19سال ہے۔ دوسری دو لڑکیاں 15سالہ عامرہ عباسی اور 16سالہ خدیجہ سلطان تھیں۔شمیمہ بیگم داعش کی شکست کے بعد شام کے ایک پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہے۔ چند ہفتے قبل دی ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے بنگلہ دیشی نژاد برطانوی شہری شمیمہ بیگم نے بتایا کہ وہ اپنی ساتھی لڑکیوں کے ہمراہ برطانوی ایئرپورٹ گیٹ وک سے ترکی پہنچی اور وہاں سے سرحد عبور کرکے شام کے شہر رقہ چلی گئی جہاں ان تینوں لڑکیوں نے داعش کے شدت پسندوں کے ساتھ شادیاں کر لیں۔

دی ٹائمز کے ساتھ اس انٹرویو میں شمیمہ بیگم نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ محض ایک شدت پسند کی جہادی دلہن بن کر داعش میں رہی۔ اس کے علاوہ اس نے داعش کے لیے کوئی کام نہیں کیا تاہم برطانوی انٹیلی جنس سروسز نے اس کے برعکس انکشاف کیا ہے۔ شمیمہ بیگم نے اپنے شدت پسند شوہر سے دو بچوں کو جنم دیا جبکہ تیسرے بچے کی ماں بننے والی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اب وہ برطانیہ واپس جانا چاہتی ہے تاہم برطانوی حکام اسے واپس ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کی طرف سے بھی اسے ملک میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں