Notice: Undefined variable: forward in /home/dailyurd/public_html/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 78

Notice: Undefined variable: remote in /home/dailyurd/public_html/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 84

پاکستان پر حملہ کرو، ہم مغربی سرحد سے چڑھ دوڑیں گے”: بی ایل اے کا بھارت کو پیغام

واشنگٹن (ش ح ط) عالمی دہشت گرد تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے پاکستان کے خلاف ایک سخت اور متنازعہ بیان جاری کیا ہے جس میں بھارت کو ریاست پاکستان کے خاتمے میں مدد دینے کی پیشکش کی گئی ہے۔ بی ایل اے نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب پاکستان میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف آپریشنز تیز ہو چکے ہیں اور بلوچستان میں حالات کشیدہ ہیں۔

بی ایل اے نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ کو مزید برداشت کیا گیا، تو اس کی ایٹمی صلاحیت نہ صرف خطے بلکہ عالمی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کی ایٹمی صلاحیت پر جنونی عسکری اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول ہے، جو عالمی سطح پر ایک شدید خطرہ کی صورت میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

بھارت کو پیشکش

بی ایل اے کے ترجمان نے بھارت کو واضح طور پر پیشکش کی ہے کہ اگر وہ پاکستان کے خاتمے کا حتمی فیصلہ کرتا ہے تو بی ایل اے مغربی سرحد سے حملہ آور ہونے کے لیے تیار ہے۔

تنظیم نے کہا کہ وہ اس فیصلے کا نہ صرف خیرمقدم کرے گی بلکہ اس کا عسکری بازو بننے کے لیے بھی تیار ہے۔ اس بیان میں بی ایل اے کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کو مشرق و مغرب دونوں محاذوں سے گھیرنے کے لیے بے تاب ہیں اور پاکستان کو اس کے اپنے خون میں ڈبونے کے لیے تیار ہیں۔ بی ایل اے نے کہا کہ یہ فیصلہ پاکستانی ریاست کے خلاف ان کی آزادی کی جدوجہد کا ایک حصہ ہوگا۔

عالمی برادری کیلئے انتباہ

بی ایل اے نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ اگر خاص طور پر برصغیر کی ریاستیں اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتیں اور پاکستان کی ریاستی دہشت گردی کو نظر انداز کرتی ہیں تو بلوچ قوم اپنی آزادی کی جنگ تنہا جاری رکھے گی۔ تنظیم نے کہا کہ جلد یا بدیر پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنی سرزمین آزاد کر لی جائے گی۔ بی ایل اے نے کہا کہ اس عمل میں جتنی دیر کی جائے گی، اس کا خمیازہ دنیا کو مزید خون، دہشت گردی اور عدم استحکام کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔

بی ایل اے کی جنگی حکمت عملی

بی ایل اے نے کہا کہ وہ ایک خودمختار، پرامن اور ترقی پسند بلوچستان کے لیے کوشاں ہیں اور اگر بلوچ قوم کی تاریخی حیثیت اور مزاحمت کو تسلیم کیا جائے تو وہ دہشت گردی کے خاتمے، علاقائی توازن اور عالمی امن کے لیے ضامن بن سکتے ہیں۔ تنظیم نے مزید کہا کہ وہ بلوچستان کی آزادی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی، اور اس جدوجہد میں اگر عالمی برادری نے حمایت کی تو اس سے نہ صرف بلوچ قوم کی آزادی ممکن ہو گی بلکہ خطے میں امن کا قیام بھی ممکن ہو سکے گا۔

بی ایل اے عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیم

بلوچستان لبریشن آرمی کو کئی ممالک نے کالعدم یا دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ ان ممالک میں شامل ہیں:

پاکستان: پاکستان نے بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے اور اس کے خلاف متعدد فوجی آپریشنز بھی کیے ہیں۔

امریکہ: امریکہ نے 2019 میں بی ایل اے کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم (FTO) اور عالمی دہشت گرد تنظیم (SDGT) قرار دیا۔ امریکہ کے مطابق، بی ایل اے پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں کرتا ہے، جن میں سیکیورٹی فورسز اور شہری اہداف کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

برطانیہ: برطانیہ نے بھی بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے اور اس کے خلاف اقدامات کیے ہیں۔

بی ایل اے کے بڑے حملے

بی ایل اے نے گزشتہ چند برسوں میں بلوچستان اور پاکستان کے مختلف حصوں میں متعدد بڑے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، جن میں سیکورٹی فورسز، اہم فوجی ٹھکانوں، اور دیگر اہم مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں خاص طور پر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دھماکے، سڑک کنارے بم دھماکے، اور فوجی قافلوں پر حملے شامل ہیں۔

1. اکتوبر 2018: بی ایل اے نے کوئٹہ میں بم دھماکہ کیا، جس میں کئی فوجی اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے۔

2. 2020: بی ایل اے نے گوادر کے قریب سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا، جس میں درجنوں اہلکاروں کی ہلاکت کی اطلاعات تھیں۔

3. 2021: بی ایل اے نے ایک بڑا حملہ کیا جس میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں درجنوں اہلکار ہلاک ہوئے اور کئی دیگر زخمی ہوئے۔

جعفر ایکسپریس پر 2025 کا حملہ

2025 میں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ایک اور اہم دہشت گردانہ حملہ کیا جس میں جعفر ایکسپریس کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملہ بلوچستان کے علاقے میں کیا گیا جہاں بی ایل اے کے عسکریت پسندوں نے ریل گاڑی پر دھماکہ خیز مواد کا استعمال کیا۔ جعفر ایکسپریس کراچی سے پشاور کی طرف جا رہی تھی، اور اس حملے میں کئی افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔

بی ایل اے نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور اسے بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کا حصہ قرار دیا۔ حملے کے دوران ریل کی پٹریوں کو بھی شدید نقصان پہنچا جس کی وجہ سے دیگر ٹرینوں کی آمد و رفت میں خلل پڑا۔ اس حملے نے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو مزید متحرک کر دیا اور بلوچستان میں عسکریت پسندی کے خلاف آپریشنز کو تیز کر دیا۔

جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد عالمی سطح پر اس حملے کی شدید مذمت کی گئی اور پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس حملے نے پاکستان میں جاری دہشت گردی کی لہر اور بلوچ علیحدگی پسند تحریک کے اثرات کو دوبارہ اجاگر کیا، اور عالمی سطح پر ایک سنگین خطرہ کے طور پر دیکھا گیا۔

بی ایل اے کے چین اور غیر ملکی مفادات پر بڑے حملے

1. کراچی یونیورسٹی خودکش حملہ – اپریل 2022

بی ایل اے نے کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ کی وین پر خودکش حملہ کیا، جس میں تین چینی اساتذہ اور ان کا پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوا۔ یہ حملہ بی ایل اے کی پہلی خاتون خودکش بمبار کے ذریعے کیا گیا تھا۔

2. چینی قونصل خانے پر حملہ – نومبر 2018

بی ایل اے کے عسکریت پسندوں نے کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا، جس میں دو پولیس اہلکار اور دو شہری ہلاک ہوئے۔ حملہ آوروں کو سیکیورٹی فورسز نے موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔

3. گوادر میں چینی انجینئرز پر حملہ – اگست 2023

گوادر میں چینی انجینئرز کے قافلے پر حملہ کیا گیا، جس میں دو بچے ہلاک اور تین افراد زخمی ہوئے۔

4. کراچی ایئرپورٹ کے قریب بم دھماکہ – اکتوبر 2024

کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک بم دھماکے میں دو چینی شہری ہلاک اور آٹھ دیگر زخمی ہوئے۔ بی ایل اے نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

بلوچ علیحدگی پسندی: ایک پیچیدہ تنازع

بلوچستان، جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، دہائیوں سے شورش، محرومی، اور علیحدگی پسند تحریکوں کا گڑھ رہا ہے۔ اس شورش کی جڑیں تاریخی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی عوامل میں پیوست ہیں۔

علیحدگی پسندوں کا مؤقف

بلوچ علیحدگی پسند گروہ، جن میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) اور دیگر شدت پسند تنظیمیں شامل ہیں، یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ: بلوچستان کو 1948 میں بزور طاقت پاکستان میں شامل کیا گیا۔ ریاست نے بلوچ وسائل کو استحصالی بنیادوں پر استعمال کیا جبکہ مقامی آبادی پسماندہ رہی۔ بلوچ عوام کو ثقافتی، لسانی اور سیاسی حقوق سے محروم رکھا گیا۔

کئی علیحدگی پسند گروہ مکمل آزادی اور ایک آزاد بلوچستان کا مطالبہ کرتے ہیں ! وہ سمجھتے ہیں کہ جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اور ریاستی آپریشنز تحریک کو دبانے کے ہتھکنڈے ہیں۔

ریاستی مؤقف

پاکستانی ریاست کا مؤقف ہے کہ: بلوچستان پاکستان کا آئینی حصہ ہے، اور وہاں علیحدگی کی کوئی گنجائش نہیں۔ علیحدگی پسند گروہ بیرونی طاقتوں خصوصاً بھارت کی حمایت سے دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ریاست نے ترقیاتی منصوبے، گوادر بندرگاہ، اور سی پیک جیسے اقدامات سے علاقے کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی۔

علیحدگی پسند عناصر عام بلوچ عوام کی نمائندگی نہیں کرتے؛ حالیہ برسوں میں کئی سابق عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈال کر ریاست سے مفاہمت کی۔

انسانی حقوق کا مسئلہ

بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ بھی سنگین ہے؛ جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشیں، اور ماورائے عدالت قتل سنگین الزامات ہیں۔

حالیہ عرصے میں ماہ رنگ بلوچ اور سمی بلوچ جیسی خواتین کی گرفتاریوں نے عالمی سطح پر بھی تشویش پیدا کی۔ انسانی حقوق کے کارکنان اور تنظیمیں ریاستی پالیسی میں اصلاحات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

مسلہ کا حل

ماہرین اور مبصرین کے مطابق بلوچستان کا مسئلہ طاقت سے نہیں، بلکہ سیاسی مفاہمت، شفاف مکالمے اور انسانی حقوق کے تحفظ سے حل ہو سکتا ہے۔ ریاست کو مقامی نمائندوں کو بااختیار بنانے، وسائل کی منصفانہ تقسیم، اور آئینی راستوں سے مسائل کے حل پر توجہ دینی ہوگی۔ دوسری جانب علیحدگی پسندوں کو بھی تشدد ترک کر کے سیاسی عمل میں شامل ہونے کی راہ اپنانی چاہیے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں