بنوں (ش ح ط) خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے علاقے جانی خیل میں پاکستانی فوج کی جانب سے مبینہ ڈرون حملے میں 10 خواتین اور 4 بچے زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ آج عصر کے وقت ایک عام رہائشی گھر کو نشانہ بنا کر کیا گیا، جس کے نتیجے میں علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔
مقامی ذرائع کے مطابق زخمیوں میں بعض کی حالت تشویشناک ہے۔ واقعے کے وقت علاقے میں پہلے سے ہی ایک بزرگ کی لاش کے ہمراہ دھرنا جاری تھا، جنہیں چند روز قبل مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کیا تھا۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حالیہ مہینوں میں ریاستی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، اور بنوں کے علاوہ ٹانک، جنوبی و شمالی وزیرستان، تیراہ اور باجوڑ کے علاقوں میں بھی سویلین آبادی ان کارروائیوں سے متاثر ہو رہی ہے۔
منظور پشتین کی شدید مذمت
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ “ریاستی ادارے مسلسل عام پشتون آبادی کو نشانہ بنا رہے ہیں، اور یہ سلسلہ ناقابلِ قبول ہے۔” اُن کا مزید کہنا تھا کہ “ہم ہر سطح پر پرامن مگر بھرپور احتجاج کرتے رہیں گے اور عالمی برادری سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بربریت کا نوٹس لے۔”
منظور پشتین نے لاپتہ استاد عرفان کی بازیابی کے لیے بنوں میں عوامی احتجاج (اولسی پاسون) میں بھرپور شرکت کی اپیل بھی کی ہے۔
پی ٹی ایم اور دیگر مزاحمتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف پشتون عوام اس ظلم کے خلاف اپنی بساط کے مطابق احتجاج کر رہے ہیں، وہیں بعض سیاسی جماعتیں، سماجی شخصیات اور صحافی حضرات اس صورت حال پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں یا ریاستی بیانیے کا ساتھ دے رہے ہیں۔
پی ٹی ایم نے پشتون قوم، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر قوم پرست حلقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان مظالم کے خلاف آواز بلند کریں اور احتجاجی تحریکوں کا ساتھ دیں۔