دوحہ + واشنگٹن (ڈیلی اردو رپورٹ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کو کم کرنے میں ان کی کوششوں نے اہم کردار ادا کیا۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں تعینات امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا، ’’میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ صرف میری وجہ سے ہوا، لیکن میں نے یقینی طور پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان گزشتہ ہفتے پیدا ہونے والی کشیدگی کو حل کرنے میں مدد کی۔‘‘
ٹرمپ نے مزید کہا کہ “ہم نے دیکھا کہ دونوں ممالک کے درمیان صورتحال انتہائی کشیدہ ہوتی جا رہی تھی اور پھر اچانک وہ وقت آیا کہ مختلف قسم کے میزائل نظر آنے لگے، لیکن ہم نے اس معاملے کو حل کر لیا۔”
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ بحران اب ختم ہو چکا ہے۔ ’’ہم نے ان کے ساتھ تجارت پر بھی بات کی۔ انڈیا اور پاکستان دونوں نے کہا: آئیے جنگ نہیں، کاروبار کریں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ اب صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘
10 مئی کا سیزفائر
امریکی صدر کے اس بیان سے چند روز قبل، 10 مئی کو امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت نے ’فوری اور مکمل جنگ بندی‘ پر اتفاق کیا ہے، جس میں امریکہ نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔
پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان ہمیشہ علاقائی امن کا خواہاں رہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا: ’’ہم امن کے لیے پُرعزم ہیں، مگر اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔‘‘
بھارتی موقف: دہشتگردی نہیں
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی ایک بیان میں جنگ بندی معاہدے کی تصدیق کی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ انڈیا اپنی سیکیورٹی پالیسیوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’انڈیا کا دہشتگردی کے خلاف ایک ٹھوس اور مستقل موقف ہے، جسے ہم قائم رکھیں گے۔‘‘
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حالیہ ہفتوں میں دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید جھڑپیں ہوئی تھیں اور بھارت نے پاکستان میں مبینہ دہشتگرد ٹھکانوں پر میزائل حملے کیے تھے، جس کے بعد جنگی فضا بن گئی تھی۔
پس منظر: بڑھتی کشیدگی، سفارتی کوششیں
یاد رہے کہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب بھارت کی جانب سے پاکستان کے مختلف علاقوں پر میزائل حملے کیے گئے تھے، جسے بھارت نے پلوامہ حملے کا جواب قرار دیا۔ ان حملوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہو گئی تھی اور فوجی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا تھا۔
ایسے میں امریکہ، چین، روس اور خلیجی ممالک کی طرف سے دونوں ممالک کو تحمل کا مظاہرہ کرنے اور مذاکرات کی میز پر آنے کی اپیلیں کی جا رہی تھیں۔
تجزیہ: ٹرمپ کا دعویٰ اور خطے کا مستقبل
ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوے کو کچھ مبصرین ایک سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھ رہے ہیں جبکہ کچھ ناقدین اسے مبالغہ قرار دے رہے ہیں۔ سابق امریکی سفارتکار اور ساؤتھ ایشیا امور کے ماہر رچرڈ ہاس کے مطابق، ’’امریکہ کی موجودگی نے کشیدگی کم کرنے میں کردار تو ادا کیا ہوگا، مگر خطے میں دیرپا امن کے لیے دونوں ممالک کو براہ راست مذاکرات کی ضرورت ہے۔‘‘
ٹرمپ کے بیان سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ واشنگٹن اس خطے میں دوبارہ فعال کردار ادا کرنا چاہتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب چین کا اثر و رسوخ جنوبی ایشیا میں بڑھ رہا ہے۔