امام مسجد کے تقرر پر تنازع، فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق، چارسدہ میں حالات کشیدہ

چارسدہ (ویب ڈیسک) خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں امام مسجد کے تقرر کے تنازع پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہوگیا۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کرکے آلہ قتل برآمد کرلیا ہے جبکہ علاقے کی صورتحال پولیس کے کنٹرول میں ہے۔

مقامی ذرائع کے مطابق چارسدہ کے علاقہ سرڈھیری ’حضرت میاں گاؤں‘ میں کچھ عرصہ قبل علاقہ مکینوں نے مسجد کیلئے ایک پیش امام مقرر کیا جس کا تعلق دیوبند مکتبہ فکر کی ذیلی شاخ جماعت اشاعتہ التوحید و السنۃ سے تھا۔ اس جماعت کو پنچ پیری گروپ بھی کہا جاتا ہے۔

اس پر دیوبند کے ہی دوسرے گروہ نے تنازع کھڑا کیا کہ پنچ پیری امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اس بات پر تنازع بڑھ گیا جس میں متعدد مرتبہ جھگڑے ہوئے اور 16 اپریل کو اس نہج پر پہنچ گیا کہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں ایک شخص دم توڑ گیا۔

متقول کی شناخت 70 سالہ ظاہراللہ ولد روئیداد خان کے نام سے ہوئی ہے جبکہ پولیس نے فائرنگ کے الزام میں مدثر نامی شخص کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرکے ایک کلاشنکوف اور پستول برآمد کرلیا۔

ایس ایچ او تھانہ سر ڈھیرئی علی اکبر نے نجی ٹی وی چینل سماء نیوز کو بتایا کہ ملزم مدثر کو آج مقامی عدالت میں پیش کرکے دو روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا ہے جبکہ متقول ظاہراللہ کی میت سپرد خاک کردی گئی ہے۔

دوسری جانب مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تنازع میں یہ دوسرا قتل ہے۔ اس سے 4 دن پہلے ہونے والی جھڑپ میں سید خان نامی شخص جاں بحق ہوگیا تھا جس کا ملزم شہزاد ولد نصیر مفرور ہے تاہم پولیس نے اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

ایس ایچ او کے مطابق تنازع کے باعث مذکورہ امام، مسجد چھوڑ کر چلا گیا ہے اور صورتحال مکمل طور پر پولیس کے کنٹرول میں ہے۔

مقامی افراد نے بتایا کہ علاقے میں یہ تنازع عرصے سے چلا آرہا تھا اور مقامی عمائدین اس کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر بعض فرقہ پرست علماء اس معاملے کو ہوا دیتے رہے جس میں دونوں گروپس کے علما شامل تھے۔

جماعت اشاعتہ التوحید کیا ہے

یہ دیوبند مکتبہ فکر کی ہی ایک سخت گیر ذیلی شاخ ہے جس کی بنیاد صوابی کے علاقہ پنچ پیر سے تعلق رکھنے والے مولانا طاہر پنچ پیری نے رکھی، اس لیے اس جماعت کو پنچ پیری جماعت بھی کہا جاتا ہے اور اس کے ماننے والے محض خیبرپختونخوا میں پائے جاتے ہیں۔

ملاکنڈ ڈویژن میں فوجی آپریشن سے قبل اشاعتہ التوحید والسنۃ مولانا صوفی محمد اور ملا فضل اللہ کے کافی قریب سمجھی جاتی تھی۔ مگر بعد آپریشن کے بعد اس کے رویہ میں لچک پیدا ہوا اور اس جماعت کے سربراہ نے الیکشن میں حکمران جماعت کی حمایت کی۔ اس سے قبل وہ جمہوریت کو ’کفر‘ قرار دیتے رہے ہیں۔

دیوبند مکتبہ فکر کے ساتھ اختلاف

پنچ پیری گروپ خود کو فکری طور پر دیوبند مکتبہ فکر سے ہی جوڑتا ہے مگر پھر بھی ایک اختلافی رائے کے باعث خود کو دوسروں سے الگ قرار دیتا ہے۔

مذہبی جماعتوں پر گہری نظر رکھنے والے صحافی سبوخ سید کے مطابق دیوبند مکتبہ فکر کا ماننا ہے کہ تمام انبیاء اپنی قبروں میں ’زندہ‘ ہیں اور قبر پر آنے والوں کی باتیں سن سکتے ہیں جبکہ اس کے برعکس جماعت اشاعۃ التوحید کا موقف ہے کہ انبیا اپنی قبروں میں نہیں سن سکتے۔ اس لیے ایک گروہ خود کو حیاتی اور دوسرا خود کو مماتی کہتا ہے۔ اس بات کو لیکر فریقین ایک دوسرے پر کفر کے فتوے بھی لگاتے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس حکومت پاکستان نے تمام مذہبی جماعتوں کے اکابرین کو ایک اسٹیج پر جمع کرکے پیغام پاکستان کے نام سے ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں تمام مذہبی جماعتوں نے اتفاق کیا تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف فتوے جاری نہیں کیے جائیں گے مگر اس معاملے پر قانون سازی نہ ہوسکی۔

سبوخ سید کا کہنا ہے کہ حکومت اس پر قانون سازی کرلیتی اور فتوے جاری کرنے والوں پر مقدمات درج کیے جاتے تو فرقہ وارانہ قتل و غارت کا راستہ مسدود ہوجاتا تاہم حکومت نے سنجیدگی نہیں دکھائی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں