بنگلہ دیش میں مدرسے کی طالبہ کو پرنسپل کے حکم پر زندہ جلا دیا گیا

ڈھاکا (نیوز ڈیسک) پولیس کے مطابق بنگلہ دیش میں ایک سکول ہیڈ ماسٹر نے جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی ایک طالبہ کو زندہ جلا دیا۔

گذشتہ ہفتہ 19 سالہ نصرت جہاں رفیع کو زندہ جلا کر مار ڈالنے کے معاملہ نے اس قدر طول پکڑ لیا کہ ملک گیر پیمانے پر احتجاج و مظاہرے شروع ہو گئے۔

ان مظاہروں سے مجبور ہو کر بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کو اس وحشتناک واردات کی مکمل تحقیقات کرانے اور اس میں ملوث لوگوں کو سزا دینے کا وعدہ کرنا پڑا۔

نصرت جہاں کو مٹھار کر مدرسہ کی چھت پر جس میں وہ زیر تعلیم تھی لے جایا گیا جہاں حملہ آوروں نے اس کو دھمکایا اور کہا کہ وہ پولیس میں درج کرائی گئی جنسی ہراسانی کی شکایت واپس لے لے۔

جب اس نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو اس پر کیرسین ڈال کر آگ لگادی گئی۔ جمعہ کے روز پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ اس ضمن میں جن 17 افراد کو گرفتار کیا گیا ان میں سے ایک نے اسکول کے پرنسپل پر الزام لگایا کہ اس کے کہنے پر یہ واردات انجام دی گئی ہے۔

تفتیشی ٹیم کے سربراہ سینیئر پولس سپرنٹنڈنٹ محمد اقبال نے بتایا کہ سکول پرنسپل نے ان لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ نصرت جہاں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ کیس واپس لے لے اور اگر وہ انکار کرے تو اسے قتل کر دیں۔

واضح رہے کہ گزشہ ماہ مارچ میں نصرت نے پولیس میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی رپورٹ درج کروائی تھی۔ بعد ازاں پولیس اسٹیشن میں پیش آنے والے اس واقعے کی ایک ویڈیو لیک ہوگئی، جس میں مقامی پولیس افسر نے نصرت کی شکایت کو ’ایک معمولی واقعہ‘ قرار دیتے ہوئے رد کر دیا تھا۔

اقبال کے مطابق حملہ آوروں نے نصرت کو آگ لگانے سے قبل اسکارف سے باندھ دیا تھا۔ اقبال کا مزید کہنا تھا، ’’حملہ آور اس کارروائی کو خودکشی کی شکل دینا چاہتے تھے لیکن اسکارف جل جانے کی وجہ سے نصرت کے ہاتھ پاؤں کھل گئے اور وہ نیچے سیڑیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘

انیس سالہ نصرت کا 80 فیصد جسم آگ سے جل چکا تھا اور وہ 10 اپریل کو ہسپتال میں انتقال کر گئی۔ نصرت نے موت سے قبل ایک ویڈیو ریکارڈ کروائی تھی، جس میں اس نے ہیڈ ماسٹر (پرنسپل) کے خلاف تمام الزامات کو دہرایا اور پرنسپل سمیت دیگر ملزمان کی نشاندہی بھی کی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق بنگلہ دیش میں جنسی زیادتی اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ حکام حملہ آوروں اور ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ تنظیم کی جنوبی ایشیا کے لیے ڈائریکٹر مناکشی گنگولی کے مطابق نصرت جہاں رفیع کا قتل یہ بات ثابت کرتا ہے کہ جنسی ہراسیت سے متاثرہ خواتین کو سنجیدہ لیا جائے اور حکومت ان کو قانونی تحفظ فراہم کرے تاکہ وہ انتقامی کارروائی کا نشانہ نہ بنیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں