سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے مخالفین کے سر قلم کردیئے، انتہائی افسوسناک خبر آگئی

ریاض (ویب ڈیسک) سعودی عرب کی حکومت نے مبینہ طور پر دہشت گردی کے الزام میں سزائے موت پانے والے 37 قیدیوں کے سر قلم کردیے ہیں۔

سعودی عرب میں گزشتہ چار سال کے دوران ایک ہی روز اتنی بڑی تعداد میں قیدیوں کے سر قلم کیے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔

اس سے قبل 2 جنوری 2016ء کو سعودی حکام نے ایک ساتھ 47 افراد کے سر قلم کیے تھے جنہیں دہشت گردی سے متعلق مختلف مقدمات میں موت کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔

ان 47 افراد میں معروف شیعہ عالمِ دین نمر النمر بھی شامل تھے جن کا سر قلم کیے جانے پر پاکستان اور ایران سمیت کئی ملکوں میں سعودی عرب کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے۔

پرتشدد مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے میں توڑ پھوڑ بھی کی تھی جس کے بعد سعودی عرب اور ایران کے تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے تھے۔ واقعے کے بعد سے ایران میں سعودی سفارت خانے تاحال بند ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے دعویٰ کیا ہے کہ منگل کو جن افراد کے سر قلم کیے گئے ہیں ان میں اکثریت شیعہ نوجوان اور شیعہ عالم دین تھے۔

واشنگٹن میں ‘گلف انسٹی ٹیوٹ’ کے نام سے تحقیقاتی ادارہ چلانے والے سعودی تارکِ وطن علی احمد کے مطابق وزارتِ داخلہ نے سزا پانے والے جن افراد کی فہرست دی ہے ان میں سے ان کی تحقیق کے مطابق 34 افراد شیعہ ہیں۔

ڈیلی اردو کو ابتدائی طور پر ملنے والی لسٹ کے مطابق جن 8 شیعہ عالم دین اور دیگر شیعہ افراد کے سر قلم کیے گئے ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں

(1) احمد حسن علی آل ربیع (2) احمد حسین علی العرادی (3) احمد فیصل حسن آل درویش(4) جابر زہیر جابر المروہون (5) الشیخ حسن علی آل ربیع (6) حسین علی جاسم الحمیدی (7) الشیخ حسین قاسم علی العبود (8) الشیخ حسین محمد علی آل مسلم (9) حیدر محمد ابراہیم آل لیف (10) سالم عبد اللہ عوض العمری الحربی (11) سعید محمد سعید السکافی (12) سلمان امین سلمان آل قریش (13) طالب مسلم سلیمان الحربی (14) طاہر مسلم سلیمان الحربی (15) عباس حجی احمد الحسن (16) عبد العزیز حسن علی آل سہوی (17) عبد الکریم محمد الحواج (18) عبد اللہ سلمان صالح آل اسریح (19) عبد اللہ عادل حسن العوجان (20) عبد اللہ ہانی عبد اللہ آل طريف (21) الشیخ علی حسین علی العاشور (22) علی حسین علی المہناء (23) فاضل حسن عبدالکریم لباد (24) مجتبی نادر عبد اللہ السویکت (25) محمد حسین علی العاشور (26) محمد سعید عبدرب الرسول آل خاتم (27) محمد عبدالغنی محمد عطية (28) محمد منصور احمد آل ناصر (29) مصطفی احمد عبد اللطیف درویش (30) منتظر علی صالح السبیتی (31) منیر عبد اللہ احمد آل آدم (32) ہادی یوسف رضی آل ہزیم جبکہ دیگر دو شیعہ افراد کے نام تاحال معلوم نا ہو سکے۔

علی احمد کے بقول سعودی عرب کی تاریخ میں ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں شیعہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کے سر قلم کرنے کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے جو ان کے بقول ایران کے لئے ایک سخت پیغام بھی ہے۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ پیر کو جن افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا ہے ان میں سے بیشتر شیعہ عالم دین تھے۔

سعودی حکام نے 2016ء معروف شیعہ عالمِ دین شیخ نمر النمر کو پھانسی دی تھی جس پر کئی ملکوں میں سعودی مخالف مظاہرے ہوئے تھے۔

ایمنسٹی نے الزام لگایا ہے کہ بیشتر افراد کو ایسے جعلی مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں جو انصاف کے بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتے اور ان افراد پر تشدد کرکے ان سے اعترافِ جرم کرایا گیا تھا۔

ایمنسٹی کے مطابق جن افراد کے سر قلم کیے گئے ہیں ان میں سے 11 پر ایران کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا جبکہ 14 کو شیعہ اکثریتی علاقوں میں ہونے والے سعودی ولی عہد اور سعودی حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے کی پاداش میں سزائے موت دی گئی۔

مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی محقق لین مالوف کا کہنا ہے ’بڑے پیمانے پر دی گئی موت کی سزا، سعودی حکام کے انسانی زندگی کی طرف سخت رویے کو ظاہر کرتی ہیں۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا ’یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ کیسے سزائے موت کو ایک حربے کے طور پر استعمال کر کے سعودی عرب میں موجود شیعہ اقلیت میں اختلاف رکھنے والوں کو کچلا جا رہا ہے۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق سزائے موت پانے والے افراد میں سے 11 مردوں پر ایران کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام تھا جنھیں ’ایک انتہائی غیر منصفافہ مقدمے کے بعد سزائے موت دی گئی۔‘

اس کے علاوہ 14 افراد کو سعودی عرب کے شیعہ اکثریتی آبادی والے مشرقی صوبے قطیف میں سنہ 2011 اور 2012 کے درمیان ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لینے جیسے جرائم کی بنا پر سزائے موت دی گئی۔

ایمنسٹی کے مطابق یہ 14 افراد ایک طویل عرصے سے زیرِ حراست تھے اور مقدمات کا سامنا کر رہے تھے جس کے دوران انھوں ںے عدالت کو بتایا تھا کہ جرم کا اعتراف کروانے کے لیے دورانِ تفتیش ان پر تشدد کیا جاتا رہا اور برے سلوک کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

سعودی وزارتِ داخلہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جن افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا وہ شدت پسند نظریات رکھتے تھے اور انہوں نے مملکت میں فرقہ واریت اور بدامنی کو ہوا دینے کے لیے دہشت گرد گروہ قائم کر رکھے تھے۔

بیان کے مطابق تمام افراد پر ریاض کی خصوصی عدالت میں شفاف طریقے سے مقدمات چلائے گئے تھے جو سعودی عرب میں دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی سماعت کے لیے قائم اعلیٰ ترین عدالت ہے۔

وزارت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ان افراد پر آتش گیر مواد سے سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کرنے، انہیں قتل کرنے اور ملک کے مفادات کے خلاف دشمن تنظیموں سے تعاون کرنے کے الزامات ثابت ہوئے تھے۔

بیان کے مطابق سزائے موت پانے والے ایک سنی شدت پسند کا سر قلم کیے جانے کے بعد اس کی سربریدہ لاش کو مصلوب بھی کیا گیا تاکہ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سر قلم کیے جانے کی کارروائیاں ریاض، مکہ اور مدینہ سمیت کئی شہروں میں انجام دی گئیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں