دہشتگردی کا تدارک ضروری ہے۔۔۔۔! تحریر: عبید خان

پاکستان کا قیام نظریہ پاکستان کے تحت وجود میں آیا جس کا بنیادی اصول صرف اسلامی نظام کا قیام تھا مگر بدقسمتی سے ہم پر مسلط حکمرانوں نے مخصوص مفادات کے تحت مختلف نعرے لگائے اور اسلام کا نام لے کر ملک میں ہی اسلام کے ساتھ ایسا کھیل کھیلا جس کا خمیازہ ہم مملکت خداداد کے دولخت ہونے کےبعد بھی ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں اس میں ایک ناسور فرقہ پرستی ہے جس کے نتیجہ میں ہونے والی دہشتگردی اب تک ہزاروں انسانون کو نگل چکی ہے دہشت گردوں نے ہمارے ملک کو تقریباً یرغمال بنا لیا تھاان دہشتگردوں کا تعلق بیرون ممالک سے بھی تھا اور مقصد خدانخواستہ ملک کے مزید ٹکڑے کرنا تھا، اس پر ستم ظریفی یہ تھی کہ ان غیر ملکی دہشتگردوں کے سہولت کار اور ہمدرد ملک کے شہری تھے، مگر ہماری مسلح افواج نے اپنی زمہ داری نبھائی اور 70 ہزار جوانوں کی قربانی دے کر ان دہشتگردوں کی کمرتوڑ دی ، مگر صد افسوس کہ ابھی تک ایسے واقعات رونما ہوتے رہے جس کو لے کر بین الاقوامی طور پر مسلمانوں پر دہشتگردی کا الزام عائد ہوتا رہا اور عالمی سطح پر ایک تاثر ہے کہ مسلمان ہی دہشتگرد ہیں پرامن مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ دنیا کو باور کراتا رہا کہ اسلام امن کا داعی مذہب ہے مگر اس پروپیگنڈے کو زائل کرنے میں مکمل کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ حالیہ کرائسٹ چرچ واقعات نے دنیا کو رائے تبدیل کرنے پر مجبور کیا اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی شخصیت حقیقت پسند رویہ اپنانے پر مسلمانو ں کی ہیروئن بن گئی کرائسٹ چرچ سانحہ میں49 مسلمانوں کی شہادت ایک ایسا المیہ تھا جس نے امریکا کے 9/11 حملوں کے بعد دنیا میں زیادہ پذیرائی حاصل کی۔ اب دنیا خصوصی پاکستان کے اس موقف پر غور کرنے کو تیار ہوئی کہ دہشتگرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔ اگر مذہب ہوتا تو نیوزی لینڈ سانحہ کا ذمہ دار گورا مسلمان ہوتا۔ دوسرے ممالک میں دہشتگردی کے واقعات یہ نشاندہی کر رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں ان کے لیے کارروائی مشکل ہوچکی ہے اور یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ دہشتگردی کے ناسور کے خاتمہ کے لیے پاکستان نے جتنی قربانیاں دیں اس کی مثال نہیں ملتی ہے دہشتگردی کے خاتمہ سے متعلق گزشتہ دنوں ایک کانفرنس میں دہشتگردی کا شکار ہونے والے کچھ خاندان موجود تھے وہاں پر ایک خاتون زہرہ بتول نے بتایا کہ ان کے خاوند عمران حسین پر پاکستان اور سعودی عرب میں حملے ہوئے وہ ایک بزنس مین تھا اور ضرورت مندوں کی مدد کرتا تھا اس کے ذمہ بعض رفاعی تعلیمی اداروں کی امداد کرنا بھی تھاوہ تمام کاروبار ختم کرکے اپنی جان کی حفاظت کےلیے پاکستان چھوڑ گیا، اس مختصر واقعہ نے مجھ پر گہر ااثر چھوڑا اور یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اس نوجوان خاتون اور اس کے ننھے بچوں کو باپ سے دور کردیا گیا، آخر ہمارے ادارے کس کےخلاف کارروائیاں کر رہے ہیں یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ عمران حسین جیسے بے شمار افراد ان مذہبی دہشتگردوں کی لسٹ پر ہیں ان سب کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے عقیدہ کے مطابق چلتے ہیں اور ان دہشتگردوں کی ظاہری پالیسی کے تحت ہر بااثر شیعہ کو قتل کردیا جائے اگر پولیس و د خیگر ادارے تحفظ نہیں دے سکتے اور زہر ہ بتول جیسی باشرح خاتون کو دھمکیاں دینے والے اور ان کو مالی نقصان پہنچانے والوں کی حکومت بیخ کنی نہیں کر سکتی تو پھر ہمیں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسی قیادت کے لیے دعا کرنا پڑے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں