عراق اور لبنان میں عوامی مظاہروں کی اصل وجہ! (ساجد خان)

گزشتہ چند ہفتوں سے عراق اور لبنان میں مظاہرے زور پکڑ رہے ہیں، مظاہرین کے متعدد مطالبات میں ایک مطالبہ غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ بھی ہے جبکہ دونوں ممالک کی حکومتیں اپنی پوری کوشش کے باوجود مظاہروں کو ختم کرنے میں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہیں۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پورے مشرق وسطیٰ میں صرف ان دو ممالک کی عوام ہی سڑکوں پر کیوں آئی جبکہ غربت اور بیروزگاری دوسرے عرب ممالک میں بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

عالمی میڈیا کی اگر ہم بات کریں تو ان کی نظر میں ان مظاہروں کی اہم وجہ ایران کی بیجا مداخلت ہے کیونکہ ان دونوں ممالک میں ایران کی ملیشیا کام کر رہی ہیں۔ امریکہ اور عرب حکمران بھی اپنے بیانات میں اسی قسم کا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں،اس بات میں کچھ حقیقت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ عراق میں مظاہرین نے ایرانی سفارت خانے پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی لیکن لبنان میں ایرانی نواز حزب اللہ گزشتہ چار دہائیوں سے کام کر رہی ہے مگر آج تک لبنان میں ایسا احتجاج نظر نہیں آیا بلکہ گزشتہ انتخابات میں حزب اللہ نے اپنے سیاسی کیرئیر کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں یعنی کہ ان کو عوامی حمایت حاصل بھی ہے اور اس میں اضافہ بھی ہوا ہے تو پھر لبنان میں ایسا کچھ الزام لگانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

معاملات جو بھی ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ مظاہرے کافی حد تک عوامی سطح کے تھے،جس کی مقبولیت کو دیکھ کر کچھ جماعتوں نے حمایت کا اعلان کر کے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش ضرور کی مگر اس سے کسی کے خلاف بڑی سازش کی بو نہیں آئی۔

اب اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ان دو ممالک میں ہی اتنے کامیاب مظاہرے کیوں جاری ہیں جنہیں روکنے کی ہر کوشش ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے،میرے خیال میں اس کی اہم وجہ دونوں ممالک میں اقتدار کا مذہبی بنیادوں پر کوٹہ ہے۔

آپ اگر ان دونوں ممالک کے اقتدار کی شراکت داری کے بارے میں نہیں جانتے تو میں بتاتا چلوں کہ لبنان میں خواہ کوئی بھی جماعت یا شخصیت اکثریتی ووٹ یا نشستیں حاصل کر لے مگر صدر صرف عیسائی ہی بنے گا،وزیراعظم سنی ہو گا جبکہ اسپیکر شیعہ ہو گا۔

عراق میں بھی کچھ اس طرح سے ہی تقسیم ہے کہ صدر کرد قوم کا ہو گا،وزیراعظم شیعہ ہو گا جبکہ اسپیکر سنی ہو گا حالانکہ یہ دونوں ممالک بنیادی طور پر سیکولر تصور کۓ جاتے ہیں لیکن سیاست میں مذہبی بنیادوں پر اقتدار کی تقسیم ہوتی ہے اور میرے نزدیک مسائل کی اصل جڑ یہی ہے۔

وہ یوں کہ لبنان میں ایک سیاست دان جتنا بھی قابل ہو،عوام اور ملک سے مخلص ہو،حکومت چلانے کا اہل ہو مگر وہ وزارت عظمیٰ جیسے اہم عہدے کا حقدار نہیں بن سکتا کیونکہ وہ غیر سنی ہے اور عراق میں کسی سیاست دان میں جتنی بھی خوبیاں ہوں،وہ وزارت عظمیٰ کے قابل نہیں کیونکہ وہ غیر شیعہ ہے اور یہی کچھ ہم دیکھتے آ رہے ہیں، لبنان کے وزیراعظم سعد رفیق حریری جس نے حالیہ مظاہروں کے بعد عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے،اس میں صرف دو خوبیاں ہیں اول یہ کہ وہ سابق وزیراعظم رفیق حریری کا بیٹا ہے اور دوم یہ کہ وہ سنی ہے۔ان دو خوبیوں کی بنیاد پر ہی وہ ہر بار وزیراعظم منتخب ہو جاتا ہے حالانکہ گزشتہ انتخابات میں سعد حریری کی جماعت کو بری شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر ایک سنی سیاست دان ہونے کی وجہ سے اسے دوبارہ وزیراعظم کا عہدہ دینا پڑا۔
دوسری طرف عراق میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے حیدر العبادی کو شیعہ ہونے کی وجہ سے وزیراعظم بنایا گیا۔
اب جس ملک میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے یہ معیار ہو تو اس ملک میں غربت اور بیروزگاری نہیں ہو گی تو اور کیا ہو گا؟

سیاست میں اقتدار حاصل کرنے کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں کہ وہ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرے یا وہ انتہائی قابل ہو کہ اسے یہ اہم عہدہ حوالے کیا جائے۔

اب جن اصولوں پر لبنان اور عراق میں اقتدار کی بندر بانٹ ہوتی ہے،وہ تو کسی عبادت گاہ کی حد تک کے اصول ہیں کہ اس مسجد میں کیونکہ زیادہ سنی نماز پڑھنے آتے ہیں لہذا یہاں پیش امام سنی ہو گا اور دوسری مسجد میں کیونکہ شیعہ زیادہ تعداد میں ہیں تو وہاں شیعہ پیش امام امامت کرے گا، سیاست اور ملک چلانے کا مذہب یا قوم سے کیا واسطہ،ہر وہ شخص ملک چلانے کا اہل ہے جو ملک کا شہری ہو اور قابلیت رکھتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں دوسرے ممالک کی مداخلت بھی زیادہ ہے، ملیشیا بنانے کے پیچھے بھی یہی عمل کار فرما ہے کہ ہم اپنی مذہبی برادری کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کر سکیں تاکہ ہم اپنی برادری کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کر سکیں۔جس کی وجہ سے معاشرے میں عدم استحکام پیدا ہونا معمولی بات ہے۔

اب اگر لبنانی اور عراقی قوم واقعی اپنے ممالک میں مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ان کالے قوانین کو ختم کرنے کی جدوجہد کریں تاکہ ملک میں جو مذہبی بنیادوں پر سیاسی تقسیم ہے وہ ختم ہو سکے۔

ایک سنی سیاست دان کو شیعہ اور کرد ووٹ دے کر وزیراعظم بنائے اور ایک شیعہ سیاست دان کو سنی اور عیسائی ووٹ دے کر کامیاب کرے۔

جب اقتدار مذہب کی بنیاد پر ملے گا تو پھر اقتدار پر فائز شخص عوام کو مذہبی ترازو پر ہی تولنے کی کوشش کرے گا،اپنے ہم مذہب اور ہم فرقہ افراد کو زیادہ مراعات دینے کی کوشش کرے گا کیونکہ ان کی وجہ سے ہی اسے اقتدار نصیب ہوتا ہے۔

یہ جاہلانہ زمانے کا قانون تصور ہوتا ہے جس کو ختم کرنے کے لئے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں اور آج جو حکمران ان دونوں ممالک پر تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں خصوصاً امریکہ اور سعودی عرب،ہم اگر تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو عراق اور لبنان میں یہ کالا قانون نافذ کروانے والے بھی یہی دو ممالک ہیں۔

عراقی اور لبنانی قوم اگر واقعی میں اپنے ممالک کے حالات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو اس قانون کو ختم کروائیں، جو کہ نہایت مشکل عمل ہے کیونکہ عراق میں شیعہ سیاست دان اس پر مخالفت کرتے نظر آئیں گے جبکہ لبنان میں سنی سیاست دان مخالفت کریں گے، انہیں اس قانون میں ہی اپنی بھلائی نظر آتی ہے کہ کم محنت میں زیادہ فائدہ حاصل کر رہے ہیں لیکن اگر یہ قانون ختم ہو جائے تو غیر ملکی مداخلت بھی ختم ہو جائے گی اور سیاست کی وجہ سے جو مذہبی بنیادوں پر نفرت پھیل رہی ہے، اس میں بھی کمی آئے گی جس سے ملکی حالات خود بخود ہی بہتر ہوتے چلے جائیں گے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں