کرتار پور راہداری ایک مستحسن اقدام…! (محمد گلزار چوہدری)

برصغیر ایک کثیر الا قومی خطہ ہے جس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ یہاں پر جنگیں کشور کشائی، مال و دولت اور مذہب کی بنیا د پر لڑی جاتی رہی ہیں۔ ان میں سے جس عنصر نے ہندوستانی سماج میں باہمی اختلاف اور دشمنی و حقارت کی جڑیں زیادہ گہری کیں وہ مذہب اور مذہبی انتہا پسندی ہے جس نے مذہبی و سماجی ہم آہنگیکو پارہ پارہ کیے رکھا۔ ہندوستان میں لوگوں نے بارہ تیرہ صدیاں اسی کشمکش میں گزاریں۔ بالا ٓخر بیسویں صدی کے وسط میں ہندوستان کے سیاسی مسئلے کا حل برطانوی سامراج نے مذہب کی بنیاد پر اس کی دوحصوں میں تقسیم، تسلیم کر لیا۔ لیکن ہندووں کی نمائندہ جماعت کانگرس نے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت و حقارت کے ایسے بیج بوئے جس کی فصل دونوں قومیں آج بھی کاٹ رہی ہیں۔

بھارت میں آج بھی اقلیتیں ہندو اکثریت کے ظلم کا شکار ہیں جن میں سے سکھ ایک نمایاں اقلیت ہے۔ سکھوں کے تمام اہم مذہبی مقامات تقسیم کے بعد پاکستان میں آگئے تھے جن کی زیارت سکھوں کے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ اس مسئلہ کو پاکستان کی طرف سے جس فراخدلی اور تیز رفتاری سے حل کیا گیا دنیا میں اسکو بہت پذیرائی ملی۔ پاکستان کے وزیر اعظم کے اس اقدام کو دونوں ممالک کے موجودہ حالات کے تناظر میں بہت سراہا گیا۔

کرتار پور سے تین سو کلو میٹر کے فاصلے پر سری نگر جہاں مسلمانوں کو کئی مہینوں سے سخت حصار میں رکھا ہوا ہے بھارت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ہندوستان میں دونوں قوموں (ہندو اور مسلمان) کی گزشتہ تیرہ سو سالہ تاریخ میں ایک بھی موقع ایسا نہیں آیا جہاں ہندووں نے مسلمانوں کے لیے کوئی ایسا اقدام اٹھایا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ سیکولر ملک کا دعویٰ کرنے والوں نے 2006ء تک اقلیتی امور کی کوئی وزارت قائم نہیں کی تھی اور دنیا کی اس سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت نے تمام وسائل ہندو وں کی بہبود و ترقی کے لیے خرچ کیے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں لوگوں کو مذہبی آذادی زیادہ حد تک حاصل ہے۔ بھارتی بیورو کریسی میں بیٹھے متعصب اور انتہا پسند ہندو افسران ہر گز نہیں چاہتے کہ مسلمانوں، دلتوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کو فائدہ پہنچایا جائے۔ 2005ء میں جاری ہونے والی سچر کمیٹی رپورٹ میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ اب یہ سوچنا فضول ہے کہ بھارت کی طرف سے بھی کسی ایسی ہی خیر سگالی یا فراخدلی کا اظہار کیا جائے گا۔

بھارت میں مسلمانوں کو اقتصادی و سماجی ترقی کے بجائے سیکیورٹی کا احساس زیادہ رہتا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر وہ بھارت کی مخالفت کرتے ہوئے اسی لیے خوفزدہ ہیں کہ انہیں بھی ایک علیحدگی پسند، فرقہ پرست ملک دشمن طبقہ سمجھا جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کرتار پور راہداری کھلنے کے فوری بعد کشمیر میں سے کرفیو اٹھا لیا جاتا۔ تا دم تحریر ایسا کوئی اشارہ بھارت کی طرف سے نہیں ملا۔ 2016ء کے بعد کشمیر میں پیلٹ گنوں کے استعمال سے بینائی سے محروم ہونے والوں کی تصویریں دیکھ یہ تسلیم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ہندو ذہنیت سے مسلمانوں کی نفرت کس حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں نہتے لوگوں پر اس طرح کا تشدد کہیں نہیں دیکھا گیا۔

پاکستان کی طرف سے سکھ یاتریوں کو ویزے کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دینا یقینا ایک مشکل کام تھا سو وہ بھی پاکستان کر دیا۔ یہ ایک مسلم ریاست کا امن و محبت کا پیغام ہے جسے ہر اس شخص نے سراہا جو سیکولرازم پر یقین رکھتا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے اور افراد کی مذہبی و شخصی آذادیوں کو یقینی بنانا اس کے آئین میں شامل ہے۔ دونوں ممالک کی تاریخ میں کئی بار جنگ کی نوبت آئی لیکن پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کے رستے کا انتخاب کیا۔ دونوں ممالک میں آٹھ سے زیادہ مسائل حل طلب ہیں جنہیں مل بیٹھ کر حل کرنے پر پاکستان کی طرف سے زور دیا جاتا رہا ہے۔ تاہم بھارت نے ہمیشہ ہٹ دھرمی سے کام لیا اور خطے کے امن کو داؤ پر لگا دیا۔

تاریخ میں کئی مثالیں ایسی ہیں جہاں بھارت نے قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے عقیدے کو ترجیح دی اور اس کے مطابق فیصلے کروائے جیسا کہ لاہور کے شہید گنج گوردورہ اور بابری مسج کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ مغل بادشاہ شاہ جہان کے دور میں 1653ء میں شہید گنج مسجد لاہور میں تعمیر ہوئی جس میں معتبر تاریخی ذرائع کے مطابق 1799ء تک رنجیت سنگھ کی فوج کی طرف سے پابندی لگانے اور اسے گوردوارہ میں تبدیل کرنے تک مسلمان نماز ادا کرتے رہے۔ 1849 میں جب انگریزوں نے لاہور پر قبضہ کیا تو مسلمانوں نے یہ مقدمہ عدالت میں پیش کیا اور مسجد کی بحالی کی استدعا کی جسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ 51 سال بعد گوردوارہ کا وجود مطلوبہ جگہ سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بر عکس بابری مسجد کے مقدمہ میں اس قانون کا اطلاق نہیں کیا گیا تھا جس میں غیر منقولہ جائیداد کی پہلی پوزیشن بحال کرنے کی مدت 12 سے 30 سال مقرر کی گئی ہے۔

پاکستان میں بلا شبہ اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہے اور ان کے مذہبی جذبات کا خیال رکھا جاتا ہے جس کی نمایاں مثال کرتار پور راہداری کھول کر کیا گیا ہے۔ بھارت میں بی جے پی اپنی انتخابی مہم کے ایجنڈے میں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو ہندوووٹ کو متحد رکھنے کے لیے استعمال کرتی آ رہی تھی۔ 1998ء سے لے کر 2014ء تک یہ مختلف سیکولر سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے حکومت بناتی رہی اس لیے وہ اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر تھی۔ لیکن 2019ء میں جب اسے اکثریت ملی تو اس نے دونوں کام بغیر کسی خوف کے انجام دیے جس سے اس کی مذہبی انتہا پسندی اور مسلم دشمنی کھل کر دنیا کے سامنے آئی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی طرف سے کرتار پور راہداری کھولنے پر انتہا پسندی کا تاثر زائل ہوا ہے جو یقینا حکومت ایک مستحسن اقدام گردانا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں