ریاست مدینہ میں آٹا بھی عوام سے دور…! (بشریٰ نسیم)

ریاست مدینہ کے بعد پاکستان وہ پہلی ریاست ہے جو اسلامی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی۔ قیام پاکستان کی تحریک کے دوران جب قائد اعظم سے پاکستان کی قانون سازی کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ پاکستان کی قانون سازی آج سے چودہ سو سال قبل ہو چکی ہے۔ قائد اعظم کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے وجود میں آنے والی یہ نظریاتی ریاست اب ریاست مدینہ کی عملی تصویر ہوگی۔ لیکن آج 73 سال گزرنے کے بعد بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان پر جاگیرداروں، سرمایہ داروں، چوروں کا قبضہ ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی ملک کو صحیح معنوں میں عملی طور پر ریاست مدینہ بنانے کا وعدہ کیا تھا مگر آج ڈیڑھ سال بعد ریاست مدینہ کا نعرہ بھی کھوکھلا ثابت ہوا ہے۔ غریب عوام کو مہنگائی کے ذریعے زندہ درگور کیا جا رہا ہے۔ وطن عزیز کے قرب و جوار سے مجبور و بے بس لوگوں کی خود سوزی کے خبروں نے دل کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی لاچار باپ کی خودکشی کی خبرمنظر عام پر نہ آتی ہو۔ بجلی و گیس کے بلوں میں اضافہ ، بے روزگاری، ٹیکسوں کی بھرمار، اور اب آٹا بھی ناپید ہو چکا ہے۔ یعنی غریبوں سے روٹی کا نوالہ چھیننے کی بھی تیاری ہو گئی ہے۔ ملک میں آٹے کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے ۔فی کلو آٹا کی قیمت 70 روپے تک جا پہنچی ہے ۔ریاست مدینہ میں صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا کیونکہ اس کی ذمہ داری بھی اللہ کے نبی ۖ رحمةللعالمین نے اٹھا رکھی تھی۔ معاشرے کے استحکام میں ریاست کا کردار بحیثیت امین کے ہوتا ہے کہ وہ ریاست میں بسنے والے شہریوں کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے رفاہ عامہ کے میدان میں اپنا کردار ادا کرے، تاکہ ایک بہتر اور فلاحی ریاست کا تصور قائم رہے۔ تاریخ انسانی میں اگر اب تک واضح اور مثالی طور پر کوئی ایسی ریاست قائم ہوئی ہے، جسے مکمل فلاحی ریاست کا خطاب دیا جاسکتا ہے، تووہ محمد مصطفیؐ کی ریاست مدینہ ہی ہے۔جس پر ہر پہلو سے فلاحی ریاست کا اطلاق ہوتا ہے۔فلاحی مملکت سے مراد ایک ایسی ماڈل ریاست ہے جوکہ مدینہ منورہ میں قائم ہوئی، وہ صحیح معنوں میں ایک اسلامی نظریاتی ریاست تھی۔ نبی کریم ۖ نے جو مثالی فلاحی ریاست کا تصور دیا وہ نہ صرف قابل تعریف ہے ،بلکہ دنیا کے تمام ممالک کے لیے قابل تقلید بھی ہے۔ آپۖ نے مدینے میں فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی اور بحیثیت رہبرو رہنما ،حاکم کا ایک نیا تصور دیا اور واشگاف الفاظ میں فرمایا ” قوم کا سربراہ اس کا خادم ہوتا ہے”۔ افسوس ریاست مدینہ کے دعویدار ہمارے موجودہ حکمران کو تو یہ پتہ بھی نہیں کہ قوم کا خادم کسے کہتے ہیں اور وہ کون ہوتا ہے؟ ۔ انہوں نے طفلی تسلیاں دینے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔

ادھر شہر میں آٹے کے حصول کے لئے لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ کیا عوام کی تذلیل کرنے کا نیا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ایک غریب آدمی روٹی کھا کر اپنا بھر لیتا تھا۔ نئے پاکستان میں وہ اپنی اور اپنے بچوں کی بھوک تو مٹا نہیں سکتا تو پھر اس کومر جانا چاہیے کیونکہ چند روز قبل ہمارے وزیر اعظم نے خود فرمایا تھا کہ سکون تو صرف قبر میں ہی ملتا ہے۔

سوشل میڈیا صارفین آٹے سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا ماضی سے تقابل کرتے ہوئے نا صرف حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ حکومتی نعرے دو نہیں ایک پاکستان کو الٹ کر ایک نہیں دو پاکستان سے تعبیر کرتے رہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ‘مہنگائی کی نئی لہر ملک بھر میں ہے۔ لاہور میں آٹے کی فی کلو قیمت میں چھ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے ۔ملک میں مطلوبہ مقدار میں گندم کی موجودگی، فلور ملوں کو باقاعدگی کے ساتھ ان کی ضرورت کے مطابق فراہمی اور معمول کے مطابق وہاں گندم کی پسائی کے باوجود دکانوں سے آٹا کیوں غائب ہے؟ متعلقہ ذمہ داروں پر اس سوال کا جواب لازم ہے۔ اس وقت ملک کے طول و عرض میں آٹے کا جو بحران دکھائی دے رہا ہے اور اس کی قیمتیں بیلگام ہوتی جا رہی ہیں، اس سے عوام کی بے چینی میں اضافہ ہونا ایک منطقی بات ہے۔مارکیٹ کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اگر فلور ملیں یکطرفہ طور پر آٹا پانچ روپے فی کلو مہنگا کر رہی ہیں تو دکاندار اس سے بھی زیادہ اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹ بھی منظر عام پر آچکی ہے کہ بہت سی فلور ملیں سرکاری کوٹہ اوپن مارکیٹ میں فروخت کر رہی ہیں جو افغانستان اسمگل ہو جاتا ہے۔ آٹے کی قیمت تو بڑھی سو بڑھی تھی، لیکن دوسرا المیہ یہ تھا کہ مارکیٹ سے آٹا ہی غائب ہو گیا، عام آدمی کو آٹا مہنگے داموں بھی میسر نہیں تھا۔صرف پنجاب ہی نہیں، بلکہ کراچی میں بھی چکی کا آٹا 2 روپے کلو مزید مہنگا کر دیا گیا۔ آٹے کی قیمت میں اضافے کے بعد نان بائی ایسوسی ایشن نے بھی روٹی10روپے اور نان 15 روپے کا کرنے کا اشارہ دے دیا۔ کراچی میں اِس وقت 100کلو گندم کی بوری 500 روپے اضافے کے بعد 5200 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ یہی صورتِ حال بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی ہے۔

بلوچستان میں بھی سو کلو کا آٹے کا تھیلا 5,500 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔بلوچستان اپنی 2 ملین ٹن گندم کی ضرورت پوری کرنے کے لئے پنجاب اور سندھ پر انحصار کرتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں بھی 95 فیصد گندم پنجاب سے جاتی ہے، لہٰذا اگر پنجاب میں گندم کا بحران پیدا ہوتا ہے تواس کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہوتے ہیں۔ نئے سال کا ابھی پہلا مہینہ بھی مکمل نہیں ہوا اور آٹے کی قیمت میں دو بار اضافہ ہو چکا ہے۔ جنوری کے پہلے ہفتے میں بھی آٹے کی قیمت چار روپے فی کلو بڑھی تھی۔یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ گزشتہ ایک برس میں آٹے کی قیمت میں 18روپے کا اضافہ ہو چکا ہے، جس کا مطلب ہے کہ آٹے کی قیمت 23 فیصد بڑھی ہے۔ جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا توآٹا 52 روپے فی کلو تھا اور ایک ماہ کے اندر اندر ہی دو روپے اضافے سے قیمت 54 روپے فی کلو ہو گئی۔ اس کے بعد 60 روپے فی کلو تک گئی اور صرف دو ہی ہفتوں میں اب فی کلو آٹے کی قیمت مزید اضافے کے بعد 70 روپے ہو چکی ہے۔

حکومت نے بحران پیدا ہو نے کے بعد مل مالکان کو جرمانے بھی کئے اور بعض کے لائسنس معطل کئے اگر یہی کام پہلے کر لیا جاتا تو شاید یہ صورتِ حال ہی پیدا نہ ہوتی۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ فلور مل مالکان کو پابند کرے کہ وہ طے شدہ طریقہ کار کے مطابق کام کریں، گندم کی چوری کا خاتمہ کرے اورساتھ ہی ساتھ حکومت گندم و آٹے کی غیر قانونی ترسیل و سمگلنگ کو روکے۔ حکومت کو چاہئے کہ اب بھی ذمہ داروں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرے، ہر معاملے کاصرف نوٹس لے لینا ہی کافی نہیں ہے، آخر کب تک صرف باتوں سے ہی عوام کا پیٹ بھرنے کی ریت چلتی رہے گی؟۔ بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ذخیرہ خوروں نے گندم ذخیرہ کر لی گئی ہے۔ چکیوں پر آٹا 70 روپے کلو میں فروخت کیا جا رہا ہے جبکہ عام مارکیٹ سے معیاری آٹا بھی نایاب ہو چکا ہے۔گندم کی قلت کے علاوہ قیمت کے بڑھنے میں بڑے پیمانے پر ذخیرہ اندوزی کا بھی عنصر بھی شامل ہے جس کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔عوام کا کہنا ہے کہ اب پیٹ کیسے بھریں، کھائیں تو کیا پکائیں تو کیا ،سارا بوجھ عام آدمی پر آرہا ہے، حکومت کیا کر رہی ہے۔ دوسری جانب وزیر خوراک پنجاب نے سب اچھا کی رپورٹ دینے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کہیں بحران ہے تو بتائیں؟۔شہر کے یوٹیلیٹی اسٹورز سے بھی آٹا غائب ہو گیا ہے۔

وزیر اعظم کی معاونِ خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ میڈیا پر آٹے سے متعلق منفی پروپیگنڈا چل رہا ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ عوام میں بجلی و گیس کے بلوں کی ادائیگی کے بعد اب اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ وہ کسی نئے حکومتی لالی پاپ سے اپنا دل بہلاتے رہیں۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آٹا مافیا چھا گیا اور عمران حکومت نے بھی اس کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے یہ تسلیم نہیں کیا جارہا کہ ملک میں آٹے کا بحران موجود ہے بلکہ اسے مصنوعی قرار دیا جارہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ وزیراعظم عمران خان آٹا بحران کو ختم کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں