وادی کالاش اور اسکی ثقافت…! (سید صفدر رضا)

انسان جو بلا شبہ اشرف المخلوقات ہےجو اپنی عادات و اطوار سے متنوع طبعیت کا مالک ہے کبھی محفلوں میں تنہا کبھی ویرانوں میں خوش خاکی ساخت کی وجہ سے سائنسدانوں کے نزدیک آگ پانی مٹی اور ہوا کی متصادم خصوصیات کا مرکب ۔تبھی توجب دنیا کے جھمگھٹوں سے آزادی چاہتا ہے تو فطرت کی بے ٹباتیوں میں سکون کی تلاش میں جنگلوں اور پہاڑوں کا رخ کرتا ہےجبکہ جھیلوں جھرنوں آبشاروں دریاؤں کا پانی جھومتا گنگناتا صحراؤں کی پیاس بجھاتا تنہائی سے ہجوم کی طرف رواں ہےاصل چیز جو انسان میں ہے وہ روح ہے۔ قدرتی مناظر اس کی ابدی تسکین کاسبب بنتے ہیں قدرت کی بے ٹباتیاں اسکو نہ صرف حمد کرنے پر مجبور کرتیں ہیں بلکہ روح کی تازگی کا سبب بنتی ہیں جب ہم نے چترال کا رخ کیا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ چترال کا جھومر جو کافرستان کے نام سے منسوب ھےاب مگر اپنے قدیم ٹقافی ورثہ کی آمین اس وادی کو کالاش کہتے ہیں جانے کے لیئے صبح سویرے چترال سے سفر کا آغاز کیا تاکہ زیادہ وقت اس وادی میں گزرے سفر کے آغاز سے ہی تنہائی اداسی اور خاموشی بھی جیسے رخصت ہو گئیں ہوں موسم دلکش ہو اورہوا کے جھونکے سفید و سرمئی بادل لئے آڑے جارہی تھی پرندوں کی چہچہاہٹ نے ماحول پر سحر کی چادر اوڑھا دی تھی ہم پر ماحول کے سحر کااٹر ایسے چھایا کہ ہمیں تقریباً 5 یا 6 کلومیٹر کا سفر طے ہونے کا پتہ بھی نہ چلاجس وادی کی سیر خوابوں میں بھی نہ کی اسکو تعبیر ملنے جارہی تھی الفاظ وادی اور اسکے سفر کے حسن و جمال بیان کرنے کے لیئے دست بستہ کھڑے ہیں اور حقیقی تعریف کرنے سے قاصر ہیں۔رنج و خوشی انسانی حیات سے متصل ہیں مگر خؤشیاں اپنی جولانیوں پر تھیں ہم طلسماتی حسن کے خیال میں اس قدر کھو گئے کہ دیر روڈ پر بمبوریت بس سٹاپ آنے کا پتہ ہی نہیں چلا بمبوریت کی جانب جاتے ہوئے چند کلومیٹر پر پہلے خوبصورت وادی آیون آتی ہےکلاش جاتے ہوئے پہلا آباد گاؤں ہے یہاں اخوت اسلامی مائیکرو بینک ہے جو مقامی لوگوں کو روزگار کے لئے بلا سود قرضے مہیا کرتا ہے قدر تنگ چھوٹا سا بازار جس میں آگے بڑھ رہے تھے کہ پیٹرول پمپ آیا جہاں ڈرائیور نے ایکسٹرا سٹپنی کو پنکچر لگوایا آگے بڑھے تو حبیب بینک کی برانچ اس بات کی غماز تھی کہ بینکنگ کی سہولت ایون وادی کو دوسری وادیوں سے ممتاز بناتی ہے پوسٹ آفس بھی یہاں موجود ہےایون سے باہر نکلے تو بلند پہاڑ اور تیز رواں پانی نے استقبال کیا یہاں دریا کے پانی سے بجلی پیدا کی جارہی ہے یہ مقامی بجلی گھر ہے جو آیون اور قرب و جوار کو بجلی مہیا کرتا ہے اب پہاڑ اور دریا کے درمیان گاڑی ہچکولے کھاتے جارہی تھی پہاڑ چھت کی مانند اوپر جھکے ہوئے تھے بمبوریت برج آگیا جہاں پل عبور کرتے ہی بمبوریت پولیس اسٹیشن آتا ہے ایک جانب راستہ ریمبور ویلی چلا جاتا ہےدریا عبور کرتے ہماری بائیں جانب دریائے بمبوریت ہے سفر طے کر رہے تھےدور پہاڑوں پر برف نظر آرہی تھی بلند پہاڑوں کے دامن میں روح پرور مناظر دل موہ رہے تھے راستے خمیدہ ہیں کبھی پہاڑوں کی چوٹیوں پر سورج چمک رہا ہے جس سے روشنی منعکس ہو رہی تھی کبھی بلند و بالا پہاڑوں کے سائے عجیب ہی منظر پیش کر رہے ہیں کہیں پہاڑوں کا جھکاؤ ایسا لگتا ہے کہ اب گرا چھت ہی معلوم ہوتے ہیں در اصل کلاش وادی بریر ریمبور اور بمبوریت پر مشتمل ہے منزل قریب آرہی تھی کالاش میوزیم ہمارے سامنے تھا جس کی بالائی منزل پر سکول تھا میوزیم میں چند پرانے برتن اور کچھ قدیم ثقافتی اشیا اور لکڑی کو تراش کر شکلیں رکھی ہوئی ہیں کچھ آگے آکر مسجد برون ہے جو اسلام کی تبلیغ ہونے کی دلیل ہے یہاں مسلمانوں کی تعداد تقریبا چھ ھزار سے زائد ہے اسکا تیزی سے مقبول ہوتا مذھب ہےان ہی مناظر میں گم نجانے کس وقت ہوٹل بے نظیر آیا جس کے متعلق مشہور ہے جب بے نظیر بہت چھوٹی تھیں ذوالفقار علی بھٹو شہید کے ہمراہ یہاں کا دورہ کر چکی ہیں اس ہی وجہ سے ہوٹل کا نام منسوب ہے ایک ہوٹل جو دریا کنارے تھا اس کے لان میں لگی خوبانی توڑی اور کھائی سستانے کے لئیے تخت بچھے تھے جن پر خوبصورت گاؤں تکیے لگے ہوئے تھے ہوٹل انتظامیہ نے کافی سرو کرنے سے پہلےتحفہ کے طورپر خوبانیاں کھانے کو دیں اور کہا اسکے پیسے نہیں یہ آنے والے مہمانوں کے لئے فری ہیں کچھ دیر سستانے کے بعد خصوصی بستی میں گئے جن کی بناوٹ لکڑی اور پتھروں پر مشتمل تھی یہاں کی خواتین کالی پوشاک میں ملبوس دکھائی دیں جس کی وجہ سے انہیں سیاہ پوش کہتے ہیں خاص قسم کی موتیوں اور سپیوں کی ٹوپی جو کمر پر لٹکی ہوئی ہوتی ہےسر پر سج رہی تھیں مکانات کافی قدیم ہیں اونچے نیچے بالکونیوں والے یہاں کی بچیوں کی تصاویر بناؤ تو منہ چھپا لیتی ہیں تصاویر نہیں بنواتیں مرد شلوار قمیض ہی پہنتے ہیں مذہبی طور پر خدا کےمیسینجروں کو مانتے ہیں قربانی کاتصور ہے اپنے خدا کو بکروں کی قربانی دینے کا رواج عام ہے کسی کے مرنے پر خوشی منائی جاتی ہے کئی بکرے بیل کا گوشت پکا کر قبیلے کی دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے مرنے والے کی لاش پہلے اپنے مذہبی ٹیمپل میں رکھی جاتی ہے گھر والے سوگ میں ہوتے ہیں باقی برادری دھوم دھام سے خوشی کا اظہار کرتی ہے لاش ایک تابوت میں رکھ کر خاص جگہ جو کالاشہ قبرستان ہے میں چھوڑ آتے ہیں جو بعد میں لکڑی کے تابوت گل سڑھ جاتے ہیں لاش کے ساتھ کچھ مخصوص قیمتی سامان بھی رکھا جاتا ہے جو چوری ہو جاتا تھا اب لاش کو باقائدہ دفنایا جاتا ہے کڑکڑال ایسا گاؤں ھے جہاں سو سال سے بھی پرانے تابوت جو بوسیدہ ہو گئے ہیں موجود ہیں وہاں لاشوں کی باقیات دیکھی جا سکتی ہیں اس قبرستان میں دیو دار کا ایک پرانا درخت ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے 500 سال قدیم ہےمرنے والے کے سوگوار ایک خاص تہوار کے آنے تک داڑھی یا بال نہیں کٹوائے جشن سے ایک روز قبل سوگ ختم ہوتا ہے برادری کا کھانا ہوتا ہے دیسی گھی کے کھانوں سے شرکا کی تواضع کی جاتی ہے چلم جوش کا مزہبی تہوار 14 تا 16 مئی کو منایا جاتا ہےبمبوریت میں خاص مقام پر اہتمام کیا جاتا ہے پہلے روز گاؤں کے بزرگ پورے علاقے سے بکریوں کا دودھ اکٹھا کرتے ہیں سب سے پہلے یہ تبرک کے طور پر شیر خوار بچوں کو ملتا ہے پھر نوجواں جوانوں بڑوں اور بزرگوں کو ملتا ہے ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے ایک قطرہ ہی مل جائے آغاز تقریب مردوں کے کھلے آسمان تلے روٹیاں پکانے سے ہوتا ہے اس آٹے میں ہر قسم کا آٹا اور وہاں پائے جانے والے میوہ جات ملائے جاتے ہیں مزید کھانے میں بسکٹ چائے ایک خاص شے (کئی) رکھی جاتی ہے کھانے کے بعد خواتین کا خاص رقص ہوتا ہے جسے سیاح ارد گرد کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں جشن کا تیسرا دن بہت اہم ہوتا ہے جسے دیکھنے ملک و غیر ملکی سیاح آتے ہیں تیسرے دن سہ پہر کو ہر عمر کی خواتین ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتی ہیں شادی کے لئیے لڑکا لڑکی سے اظہار کرتا ہے اب ہلہ گلہ کرتے ہیں اس جشن کا تعلق موسم بہار کی آمد سے ہے اس جشن میں مزہبی عمائدین سبز پودوں کی شاخیں لاتے ہیں جن کا بڑے احترام سے استقبال کیا جاتا ہے شادی کے لئے لڑکا لڑکی کو بھگا کر لے جاتا ہے جس کی اطلاع لڑکے والے لڑکی کے گھر کرتے ہیں پھر لڑکی والے لڑکی سے دریافت کرتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے آئی ہے تو اس کی شادی کر دی جاتی ہے شادی کے چوتھے دن لڑکی کا ماموں لڑکے کے گھر آتا ہے اسے لڑکے والے واپسی پر مویشیوں کا تحفہ دیتے ہیں ایسی شادی شادی شدہ عورت سے بھی کی جاسکتی ہے مگر اس کے پہلے شوہر کو اس کے شادی کے اخراجات نئے شوہر کو ادا کرنے پڑتے ہیں ابادی سے دور ایک خاص مقام باشیلانی ہے جہاں حاملہ خواتین جاتی ہیں اور بعد از زچگی وہ وہاں سے خاص طرح سے لڑکا یا لڑکی ہونے کاخاص اشارہ۔ کرتی ہے ان پچوں کو باشیلانی کہتے ہیں جب خواتین ایام مخصوصہ میں بھی یہاں آتی ہیں پھر خواتین اپنے کو پاک کر کے واپس آںادی میں آتی ہے وہاں سہولیات موجود ہوتی ہیں ان رسموں رواجوں کا تعلق یو نانیوں سے منسوب ہے بعد ازاں اس پر ہند اور فارس کی چھاپ واضع ہے کالاشہ کا مطلب ہے کہیں سے آیا ہوا بادشاہ۔یہ وادی اپنی خاص زبان کالاشہ سے بھی جانی جاتی ہےجو اب بھی رائج ہے اس کے حروف تہجی ایجاد ہو چکے ہیں مقامی لوگوں کا کہنا ہےایسے پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں جوکلاشہ میں ابتدائی تعلیم دے سکتے ہیں انکو ملازمت کے مواقع فراہم کیئے جائیں تو تعلیم کا تناسب بڑھ سکتا ہے یہاں کالج بھی ہے جہاں سے فارغ التحصیل طلبا و طالبات اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لئے پشاور چترال یا دیگر شہروں کا رخ کرتے ہیں انہیں زیادہ سے زیادہ سکالر شپ کے مواقع میسر آنے چاہیں کالاشہ زبان معدوم ہوتی جارہی ہے جسکی وجہ سے یونیسکو سے اس کو محفوظ کرنے کی اپیل کی گئی ہے افغانستان کی سرحد کے بالکل قریب ہےسیب شہتوت خوبانی عام ہے بہت عمدہ ہے اس ثقافت کو یونیسکو نے قدیم ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے مختلف NGO اس کو اور لوگوں کے عقائد کی وجہ سے اڈاپٹ کر کے فنڈنگ کرتی ہیں بہرحال خوبصورت مناظر کے ساتھ یہاں حسن بھی بے مثل ہے کچھ ثقافتی اشیا کی خرید کے بعد قدرتی مناظر آنکھوں میں سموئے رسدار پھلوں کا ذائقہ لئے حسیں وادی کی حسین یادیں دل میں لئے رواں دواں دریا جو کسی حسیں ناگن کی طرح بل کھاتا اور اس کےپانی کی بازگشت کانوں میں رس گھولتے ہوئے کہ رہی ہو ہم سمندر میں سمو جانے سے قبل آپ کے ساتھ ساتھ ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں