سنگ دل اور آنسو…! (سید صفدر رضا)

وادی کاغان بڑی وسیع و عریض وادی ہے جو نہ صرف پر امن پر سکون ہے بلکہ جب رات میں آسمان پر غور سے دیکھیں تو،ستارے پہاڑوں کے آنچل کو کس خوبصورتی سے سجائے ہوئے تھے اور اس خاموشی میں دریائے کنہار سرگوشیاں کرتا محسوس ہوتا ہے ضلع مانسہرہ اپنے اندر جدید و قدیم اور تاریخی ادوار کی نشانیاں سموئے ہوئے ہے کئی پتھروں پر کندہ قدیم تحریروں کو ڈی کوڈ کرنے کی ضرورت ہے شنکیاری کے چائے کے باغات اپنی جگہ بالاکوٹ سید حسین احمد شہید شاہ اسماعیل شہید کے مزارات سکھوں کے خلاف سینہ سپر رہنے والے شہدا کی سرزمین آگے کیوائی شوگراں جسے دنیا کی چھت کہوں تو غلط نہیں پارس کاغان سے گزرتے ہوئے جب ناران منزل بنانے کی بجائے دیو مالائی داستانوں کی حامل جھیل سیف الملوک پرشب بسر کرنے کے لئیے کیمپنگ کرنا پڑی تو برسوں پرانے خواب کو تعبیر ملی ٹھنڈ سے بھرپور چاندنی بھری رات میں کیمپ سے باہر جھانکنا دیوانے کی دیوانگی ہی کہلائے گی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے عجیب سے سحر میں جکڑے لئے جاتے مگر اس خوبصورت مناظر کو دیکھنے والے جانے کہاں کھو جاتے ہیں جیسے تیسے رات گزری ہمیں تو کچھ الگ مہم کی دھن ذہن پر سوار تھی جی صبح ہماری بےچین طبعیت کی وجہ سے کچھ جلد ہو گئی تھی آنکھیں جس صبح کا منظر دیکھ رہی تھیں الفاظ اس کی منظر کشی بیان کرنے سے عاری ہیں اس صبح کو صرف محسوس ہی کیا جاسکتا ہے بیان نہیں کیا جاسکتا ھر سو پرندے فضائے آسمانی میں حمد الہی میں مشغول دیکھائی دیئے ہم سب نے اپنے اپنے بیگ تھامے رین کوٹ زیب تن کیئے اور اصل منزل کی جانب چل دیئے جی ہماری منزل مزید بلند برف پوش پہاڑوں کے دامن میں سموئے آنسو جھیل تھی اس جھیل تک کا سفر کوئی آسان نہ تھا رہنمائی کے واسطے گائیڈ لیا جس کی رہنمائی میں ایک جھیل سے دوسری جھیل تک کے لیئے کوئی آسان راستہ نہ تھابلکہ ہمیں گائیڈ نے پہلے ہی دشواریوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ان پر پیچ زگ زیگ اونچے نیچے پتھروں پر ہی چل کر جھیل پر پہنچا جا سکتا ہے مگر جھیل پر پہنچنے کے بعد تھکاوٹ کی موت واقع ہوگی خوشی سے جھوم اٹھیں گے آپ چاہیں تو خچر گھوڑے کا انتخاب کر سکتے ہیں مگر ہائیکنگ کا جنون آڑے ایا ہم نے پیدل چلنے کو ترجیح دی سفر کا آغاز خراماں خراماں آہستہ آہستہ شرارتوں سے ہوا جذبہ جواں تازہ دم پہاڑوں کو زیر کرنے کی دھن میں اس وقت عجب موڑایا جب گائیڈ نے بتایا کہ اونچے نیچے راستوں اور دو سے تین گلیشیئر عبور کرنے ہیں اور راہ میں ابادی بھی نہیں اور تقریبآ 5 سے 6 گھنٹے لگ سکتے ہیں آپ کی ہمت اور شوق دیکھتے ہوئے 4 گھنٹوں میں ہم اس جھیل پر پہنچ سکتے ہیں اگر گھوڑے لے لیئے جائیں مشورہ مانتے ہوئے ع کیا ہمارے پوچھنے پر کہ کوئی آسان راستہ وہاں تک نہیں جاتا اس نے بتایا سر جی یہ راستہ بہتر ہے ایک راستہ مہانڈری سے آتا ہےجو ناران گاؤں کے جنوب 40 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے منور گلی اور کچ گلی سے گزرتا ہے مہانڈری بازار سے گزر کر جیپ پر ہی وادی منور پہنچتے ہیں یہ وادی بذات خود قدرتی حسن کے دلفریب مناظر رکھتی ہے اس وادی سے ہائیکنگ کر کے ہرے بھرے علاقہ دھیر آجاتے ہیں دھیر سے تقریباً ساڑھے تین یا چار گھنٹوں کے بعد آپ آنسو جھیل پہنچتے ہیں دوسرا راستہ یہ ہے جو نسبتاً کم دشوار تو نہیں قدرے کم وقت لگتا ہےملکہ پربت ہوتا جاتا ہےاس کی چوٹی کوئی سر نہیں کر پایا اس ملکہ پربت کے بارے میں عجیب دیو مالائی کہانیاں مشہور ہیں برفانی موسم میں یہاں آنا دشوار ہی نہیں نا ممکن بن جاتا ہے جب برف گرمیوں میں پانی بن جاتی ہے تو اس جانب سیاح آتے ہیں بارش کا بالکل اعتبار نہیں نہ جانے کس سمت سے بادل نمودار ہوں اور برس پڑیں بارش میں راستہ انتہائی دشوار گزار ہو جاتا ہے پھسلن ہو جاتی ہےیہ آپکے رین کوٹ بارش سے جسم کو کسی حد تک بچا سکتے ہیں مگر برف کے دنوں میں جھیل کی جانب سفر تقریباً نہ ممکن ہو جاتا ہے سامنے سورج ہمیں خوش آمدید کہہ کر دھند میں کہیں کھو گیا اتنے میں ہم گلیشیر عبور کر کے ایک درے میں داخل ہو رہے تھے راستہ میدانوں اور پہاڑوں کی کشادہ بانہوں اور درہ کے نسبتاَ تنگ ہونے کے باعث سرد ہوا کے جھونکے گالوں کو تھپ تھپا رہے تھے جبکہ بادلوں کے سرمئی ٹکڑے اور دھند کا امتزاج ماحول کو مزید خنک بنارہا تھادرے کی وجہ سے مختلف پتھروں سے بلندی سے آنے والا پانی کی آواز ایکو یعنی سناٹے کے گنبد میں جیسے بازگشت ہو کانوں سے ٹکرا کر بھولا ہسرا راگ یاسر کا احساس نالے کے ساتھ ہی بہنے کا پتہ دیتے ہوئے سکوت کو شکست دے رہا تھاجب کھی آفتاب بادلوں کی اوٹ سے نئی نویلی دلہن کی طرح جھانکتا تو سردی کا احساس کم ہونے لگتا اب ہم درہ عبور کر کے میدان سے گزرنے کے بعد نالہ عبور کرتے ہیں اس کو بیس کیمپ کہا جاتا ہے کچھ دیر سستانے کے بعد چلے تو آکسیجن کی کمی سے سانس میں دشواری نے احساس دلایا کہ ہم کافی بلندی پر آگئے ہیں کچھ کوکیز بسکٹ وغیرہ چائے جو اب گرم نہ تھی تھرموس میں رکھنے کی وجہ سے مکمل ٹھنڈی بھی نہ تھی لی فارغ ہو کر چلے سامنےجو بلند پہاڑ مغرور نظر آتا تھا اس ہی کو ملکہ پربت کہتے ہیں جس پر چمکتی برف کا تاج جو سورج کی چمک سے پہاڑوں کی ملکہ کو اور بھی حسین بنا رہا تھا اگے چلتے جانے پر ملکہ پربت قریب نالہ دور وادی گہری ہوتی جارہی تھی سفر جوں جوں تھکا رہا تھا آنسو جھیل پر پہنچنے کی خواہش جوان ہو رہی تھی اگر گائیڈ کا ساتھ اور گھوڑوں پر سوار نہ ہوتے تو ہمت جواب دے دیتی اب حکم ملا یہ گھوڑا اسٹاپ ہیے گھوڑا یہیں رہے گا آگے کا سفر خود کرنا ہے چھوٹے بڑے پتھروں پر اچھل کود کرتے برفانی وادی میں پہنچ گئے وہ ملکہ پر بت جس کی سطح سمندر سے بلندی تقریباً 17400 فٹ بتائی گئی تھی اب تو بالکل چھوٹی سی چوٹی لگ رہی تھی جیسے جیسے بلندی پر آتے جارہے تھے درخت چھوٹے ہورہے تھے جیسا کہ بتایا چوٹی بھی زیادہ بلند معلوم نہیں ہورہی تھی برف کی وجہ سے جھیل دیکھی تو جاسکتی تھی مگر اس کے بالکل قریب جانا یا چھونا برف کے باعث نا ممکن تھا ایسے دیکھائی دے رہی تھی جیسے برف پوش پہاڑ شاید اپنی تنہا ہی پر رویا ہی چاہتا تھا کہ پتھر دل کے مالک کا آنسو جیسے کسی حسینہ کے رخسار پر ڈھلک گیا ہو دور دور تک کوئی ابادی نظر نہ آتی تھی تنہائی کا احساس اور بھی دل کو تنہا کیئے دے رہا تھا مگر منزل سر کرنے کی خوشی اپنی جگہ تھی لیکن اس آنسو جھیل تک آنے کے دشوار گزار راستے نے آنسو نکال دیئے تھے دل اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھا کہ ان پتھروں کو بھی کوئی کرب ہے کوئی تکلیف ضرور ہے جسکا منہ بولتا ثبوت یہ آنسو جھیل ہے وہ کتنا بڑا صدمہ تھا جس کا اظہار آنسو کے ٹپکنے سے ہوا مگر کتنا بڑا دل تھا جس نے شاید باقی آنسو ضبط کر کے انسان کو قوت برداشت کا عملی درس دیا اس منظر کو دیکھنے کے بعد ہم کسی بھی تھکاوٹ کو محسوس نہیں کر رہے تھے واپسی دل غمگیں اثرات سے معمور تھا ڈوبتے سورج میں واپس جھیل سیف الملوک تک پہنچے مگر دل و دماغ پر آنسو جھیل کے دل موہ لینے والے مناظر گھوم رہے تھے کہ واپسی کا پتہ ہی نہ چلا اور ہم ایسے تصورات میں مگن تھےاور دل اس امید کے ساتھ جینے کا حوصلہ بخش رہا تھا کہ رب کائینات کی تخلیق کردہ یہ آنسو خوشی کے ساتھی ہوں کیونکہ آنسو کا تعلق خوشی سے بھی منسوب ہےیا اللہ تعالیٰ سدا بہار رہے مرے وطن پر اسے اندیشہ زوال نہ ہو امین.

اپنا تبصرہ بھیجیں