عورت مارچ…! (ساجد خان)

پاکستان میں مارچ کے مہینہ میں ہمیشہ سے ہی گرما گرمی کا ماحول نظر آتا رہا ہے۔ ماضی میں اپوزیشن جماعتیں اس مہینے میں ہی حکومت کے خلاف احتجاج کا آغاز کرتی تھیں لیکن اب ویسا نہیں رہا کیونکہ اب اپوزیشن مارچ کے مہینہ کا نہیں بلکہ ایمپائر کی انگلی کے اشارے کا انتظار کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود مارچ کے مہینہ میں گرما گرمی ختم نہیں ہوئی بس موضوع بدل گیا ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں خواتین کے حقوق کے مطالبات کے لئے ایک مظاہرے کا آغاز کیا گیا ہے جیسے عورت مارچ کا نام دیا گیا۔ جس کو آغاز سے ہی سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس سال بھی مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی اس موضوع پر بحث میں تیزی آنا شروع ہو گئی۔
کل ایک نیوز چینل کے ایک پروگرام میں عورت مارچ کے حوالے سے کچھ شرکاء کو مدعو کیا گیا، جس میں مارچ کی حمایت میں ماروی سرمد جبکہ مخالفت میں خلیل الرحمان قمر نمائندگی کر رہے تھے۔

خلیل الرحمان قمر بدتمیز اور مغرور تو ہمیشہ سے ہی تھا مگر اس پروگرام میں اس نے اپنے اندر کا جانور ظاہر کر دیا گو کہ ماروی سرمد بھی دودھ کی دھلی نہیں ہے لیکن یہاں بدتمیزی کی ابتداء خلیل الرحمان قمر نے کی۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر اس مارچ سے خواتین کو کیا حقوق ملیں گے یا چند سو خواتین کے اکٹھے ہونے سے اسلام یا مرد حضرات کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے کہ دونوں طرف سے ہی تمام حدود پار کی جا رہی ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں عورت کے کردار کی اگر ہم بات کریں تو یہاں عورت کو کہیں مرد سے زیادہ حقوق بھی حاصل ہیں اور کہیں حقوق سے محروم بھی کیا جاتا ہے۔ آپ نے اگر کبھی شدید سردی یا گرمی میں بینک کے باہر طویل قطار میں گھنٹوں کھڑے ہو کر بل جمع کروایا ہے تو آپ اس بات کی تائید کریں گے کہ اس معاملہ پر خواتین کے لئے خصوصی پروٹوکول ہے کہ وہ جب چاہیں طویل قطار کو نظرانداز کرتے ہوئے بینک میں جائیں اور پانچ منٹ میں بل جمع کروا کر واپس چلے آنا معمول کی بات ہے۔

میں نے آج تک کسی مرد کو کسی عورت سے یہ کہتے نہیں سنا کہ تم بھی اپنی باری کا انتظار کرو۔
پبلک ٹرانسپورٹ میں اگر آپ نے سفر کیا ہے تو بس میں جہاں آپ کو درجنوں مرد حضرات کھڑے ہو کر سفر کرتے نظر آئیں گے وہیں آپ عورت کو ایک نشست پر بیٹھا دیکھیں گے اور اس کے ساتھ کی نشست خالی نظر آۓ گی کیونکہ وہ خاتون ہے لہذا اس کے لئے نشست بھی حق ہے جبکہ اس کے ساتھ والی نشست کا خالی ہونا بھی حق ہے۔

سیاست کی بات کریں تو جس طرح مرد حضرات کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہوتی ہے، اسی طرح خواتین کو بھی اجازت ہے لیکن اس کے باوجود خواتین کے لئے مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں، جن پر صرف خواتین الیکشن ہی حصہ لیتی ہیں، جس کے لئے عوام کا ووٹ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی مگر وہ عوام کی نمائندہ قرار پاتے ہوئے تمام وہ سہولیات حاصل کرتی ہیں جو عوامی نمائندے کے لئے مخصوص ہوتی ہیں۔

یہ صرف چند انفرادی حقوق ہیں جو صرف پاکستان میں ہی خواتین کو میسر ہیں ورنہ جس مغرب میں عورتوں کے حقوق کی مثالیں دی جاتی ہیں وہاں عورت کو بھی اسی طرح ایک ہی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے جہاں مرد کھڑے ہوتے ہیں، وہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے ساتھ غیر مرد خالی نشست پر آ کر بیٹھ جائے تو عورت کی تذلیل نہیں سمجھی جاتی اور نا ہی وہاں کی سیاست میں یوں عورتوں کے لئے مخصوص نشستوں کا کوئی قانون ہے۔

مغرب میں اگر برابر کے حقوق ہیں تو پھر سب شعبوں میں ہی برابری ہے۔ یہ نہیں کہ جہاں مردوں سے برتری حاصل ہو ان کے لطف اٹھاؤ اور جہاں مردوں کو برتری حاصل ہو وہاں شور شرابہ شروع کر دو۔ یہ تو وہی معاملہ ہوا۔

اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی۔
تم جیتے تو تم میرے، میں ہاری تو پیا تمھاری۔

اس طرح کے حقوق سے معاشرے میں سدھار کے بجائے بگاڑ ہی پیدا ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آخر “عورت مارچ” سے کیا حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں میں مارچ کیا گیا تو کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں حقوق حاصل کۓ اور عورت مارچ میں خواتین کے حقوق کی بات ہی کب کی جاتی ہے۔

اپنا کھانا خود بناؤ یا اپنے کپڑے خود دھو یا اپنا موزہ خود ڈھونڈو، یہ وہ خواتین کے حقوق ہیں جس کے لئے یہ سب خواتین مری جا رہی ہیں۔
کیا مرد اگر اپنا موزہ خود ڈھونڈ لے تو کیا اس سے عورتوں کو حقوق حاصل ہو جائیں گے؟ عورت مارچ اگر کرنا بھی ہے تو کم از کم ایسے مطالبات لائے جائیں کہ جنہیں پڑھ کر ایک باشعور طبقہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ ہاں واقعی یہ مطالبات جائز ہیں۔

اس مارچ میں نہایت ہی چند مطالبات یا شکوے ایسے ہیں جن کو تسلیم کرنا بنتا ہے۔ جیسے بیٹی کی پیدائش پر بھی ویسے ہی خوش ہونا چاہئے جیسے بیٹے کی پیدائش پر خوشی منائی جاتی ہے، یہ فرق واقعی میں ہمارے معاشرے کا تاریک پہلو ہے لیکن اس میں خواتین بھی اتنی ہی ذمہ دار ہیں جتنے کہ مرد۔ گزشتہ دنوں ہمارے ایک دوست جو کہ پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں انہوں نے اس موضوع پر ایک نہایت ہی افسوسناک تحریر لکھی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ جن خواتین کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے وہ ان خواتین سے زیادہ جلدی صحتیاب ہو جاتی ہیں جن کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوتی ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ کیونکہ بیٹا پیدا ہونے پر اہل خانہ ماں کے ناز نخرے اٹھاتے ہیں، خوشی میں اس کی خاطر مدارت کرتے ہیں، اسے کام کاج نہیں کرنے دیا جاتا اس لئے اس خاتون کو صحتیاب ہونے میں وقت لگتا ہے جبکہ دوسری طرف جس خاتون کی بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس کے زیادہ ناز نخرے نہیں اٹھائے جاتے، جس کی وجہ سے اسے سب کام کیونکہ خود ہی کرنا پڑتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ عورت جلد صحتیاب ہو جاتی ہے۔

یہ معاملہ نہایت افسوسناک ہے لیکن کیا یہ رویہ مرد کی طرف سے ہے۔ نہیں بلکہ عورت بھی برابر کی ذمہ دار ہے، اب وہ عورت ساس یا نند کی شکل میں ہوتی ہے جنہیں عورت ہونے کے باوجود بیٹی پیدا ہونے پر خوشی نہیں ہوتی۔ اس لئے کچھ معاملات میں اگر کہا جائے کہ عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن ہے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا۔

اب ہم بات کرتے ہیں ان مرد حضرات کی جو عورت مارچ کی مخالفت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس طبقہ کی اکثریت ان پر مشتمل ہے جو آج بھی پاکستان میں دو دہائیوں پر محیط دہشتگردی کی اگر مگر کہہ کر حمایت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے نزدیک مسجد میں خودکش حملہ سے مسلمانوں کی بدنامی نہیں ہوتی مگر چند خواتین کا مارچ کرنا بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ عورت مارچ ہماری ثقافت کا حصہ نہیں ہے مگر گلے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیا اپنی بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نا دینا ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔

بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دینا اور بیٹیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا کیا ہماری ثقافت ہے، نہیں لیکن ہم ایسا کرتے ہیں اور شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔
یہ عورت مارچ آج اگر کامیاب ہوا ہے تو اس کے اصل ذمہ دار یہی بیوقوف ہیں جنہوں نے بلاوجہ تنقید کر کے اس مارچ کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا، اگر اسی وقت مارچ کو نظرانداز کرنے کا کڑوا گھونٹ پی لیا جاتا تو شاید یہ مارچ اپنی موت آپ مر جاتا۔

ہمارے مذہبی طبقہ کی اکثریت اس مارچ کے خلاف بیان بازی کرتے نظر آتے ہیں مگر یہی طبقہ خاموش نظر آتا ہے جب معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے بلکہ کچھ معاملات میں یہ طبقہ جنسی زیادتی کرنے والے ملزمان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو صرف جنسی تسکین کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور عزت صرف اس کی ہوتی ہے جو رشتہ میں آپ کی ماں، بہن یا بیٹی ہو۔ حال ہی میں گومل یونیورسٹی میں جنسی زیادتی کا ایک بڑا اسکینڈل سامنے آیا، کتنے علماء کرام نے اس کی مذمت کی، آج سوشل میڈیا پر جو عورت مارچ کے خلاف غلیظ زبان استعمال کر رہے ہیں، کل وہی اس اسکینڈل پر یہ کہتے نظر آ رہے تھے کہ یہ اسلام کو بدنام کرنے کے لئے سازش رچائی گئی ہے یا کچھ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اس معاملہ کو زیادہ مت اچھالا جائے کیونکہ اس سے پاکستان کی بدنامی ہو گی یعنی جہاں بات خود پر آۓ تو تاویلیں پیش کی جاتی ہیں اور جو بات پسند نہیں آتی اس پر کھل کر گالیاں دی جاتی ہیں۔

ہمارے معاشرے کا یہی مسئلہ ہے کہ ہم میں اعتدال نہیں ہے، ہم ہر معاملہ میں انتہا پر چلے جاتے ہیں یا ضد اور انا کی جنگ بنا لیتے ہیں۔ عورت مارچ کے معاملے پر بھی دونوں طرف سے یہی مسئلہ پیدا ہو گیا ہے حالانکہ عورت مارچ سے نا ہی خواتین کو حقوق ملنے والے ہیں اور نا ہی مردوں کے حقوق غصب ہو سکتے ہیں لیکن ہم نے تو لڑنا ہے، مذہبی بنیادوں پر نا سہی تو نسلی بنیادوں پر اور اگر وہ بھی نہیں تو جنسی تفریق پر۔

باقی جہاں تک بات ہے خلیل الرحمان قمر یا حمزہ عباسی جیسے مخالفین کی تو انہیں عورت مارچ کی مخالفت کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے کیونکہ جنہیں وہ دو ٹکے کی عورتیں قرار دے رہے ہیں، ان ہی کی بدولت آج انہیں اتنی عزت و احترام حاصل ہوا ہے۔

آج اگر یہ آزاد خیال عورتیں نا ہوتیں تو خلیل الرحمان قمر کے واہیات قسم کے ڈراموں میں عورت کا کردار کس نے کرنا تھا، کیا ایک گھریلو عورت اس کی لکھی واہیات کہانیوں میں کردار ادا کرتی یا مولانا حمزہ عباسی جو فلموں میں ہیرو بن کر شہرت حاصل کرتے ہیں، اس فلم میں اس کی معشوقہ کا کردار بھی انہی دو ٹکے کی عورتوں میں سے کسی ایک نے کیا تھا جس کے ساتھ یہ عشق معشوقی کے گانے گاتا نظر آتا تھا۔ جہاں تک بات ہے ماروی سرمد کی تو اس مارچ میں اس کے بہت سے ذاتی مفادات پنہاں ہیں کیونکہ اسی سے اسے روزی اور شہرت مل رہی ہے، اگر اسے محسوس ہوتا کہ اسے اسلام کا نام استعمال کرنے میں زیادہ فائدہ ہے تو وہ بھی آج رابی پیرزادہ کی طرح حجاب لپیٹ کر “کرو نا کرو نا” کی رٹ لگا رہی ہوتی۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عورت اور مرد دونوں ہی لازم و ملزوم ہیں اگر کھانا عورت بناتی ہے تو مرد بھی ایسے بہت سے کام سرانجام دیتے ہیں جس کا عورت تصور بھی نہیں کرنا چاہتی۔
اس معاملہ پر “میرا جسم، میری مرضی” گروپ کا دوہرا معیار ہے، جہاں عورت کو اس کی جنس کی وجہ سے عزت و احترام دیا جاتا ہے، اس پر کوئی عورت نہیں بولتی ورنہ حق تو یہ تھا کہ برابری کا مطالبہ کرنے والی خواتین بھی طویل قطار میں کسی مرد کے پیچھے کھڑی ہو کر بل جمع کرواتیں۔
پارلیمنٹ میں خواتین کی خصوصی نشستیں ختم کرنے کا مطالبہ کرتیں لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔
اب جو خواتین “اپنا کھانا خود بناؤ” کے بینر اٹھا رکھے تھے، ان کی اکثریت کو یہ بھی نہیں معلوم ہو گا کہ ان کے باورچی خانے میں مرچ مصالحہ کہاں رکھا ہوا ہے کیونکہ وہ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی ہیں جن کا کھانا کوئی ملازم یا ملازمہ بناتی ہے جبکہ کپڑے واشنگ مشین میں دھلتے ہیں اور جس نے “اپنے بچے خود پیدا کرو” کا نعرہ لکھ رکھا تھا، اگر اس کی والدہ بھی اسی سوچ کی مالکہ ہوتی تو وہ یہ مطالبہ کرنے کے لئے دنیا میں تشریف ہی نا لا سکتی۔

یہ خواتین کا طبقہ یا ان کے نعرے عورت کی ترجمانی نہیں کر رہے بلکہ یہ صرف مخالف جنس کو نیچا دکھانے کا ایک طریقہ ہے، آپ کو اس مارچ میں تعلیمی اداروں میں طالبات کو مسائل کو سامنے لانا چاہئے تھا، ان مسائل کے تدارک کے لئے حل بتانا چاہئے تھا۔

وزیرستان، بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے نواحی علاقوں میں خواتین کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنا چاہئے تھا۔ وراثت میں بیٹیوں کا حصہ مانگنا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں دیکھا گیا اور نا ہی مستقبل میں ایسا کچھ تعمیری کردار ادا کیا جائے گا سوائے طنز اور طوفان بدتمیزی کے۔

اس بحث میں دونوں طرف سے ہی غلطیاں موجود ہیں جنہیں مل بیٹھ کر معاملات کو سلجھانا ہو گا ورنہ یہ لڑائی ہماری اخلاقی اقدار اور معاشرے میں مزید تباہی لائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں