استاد دامن…! حصہ دوم (راٶ محمد نعمان)

گزشتہ سے پیوستہ

استاد دامن کا انڈین نیشنل کانگریس سے تعلق بننے میں اہم کردار انڈین نیشنل کانگریس پنجاب کے سیکرٹری اور بعد میں صدر میاں افتخارالدین کا تھا۔ جنہوں نے بعد میں پروگریسو پیپرز کی بنیاد بھی رکھی جس کے تحت تین جرائد پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار شائع ہوتے رہے۔ وہ باغبانپورہ کے آرائیں خاندان کے امیر ترین شخص تھے۔ تاریخی شالیمار باغ بھی انہی کے خاندان کے پاس تھا۔ انہوں نے 24 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں منظور کی گئی قرارداد لاہور (جسے اب قرارداد پاکستان کہا جاتا ہے) کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ لیکن 1945 میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور اس کے بھی پنجاب کے صدر بنے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی میاں افتخارالدین مہاجرین کی بحالی کے صوبائی وزیر بنا دیئے گئے۔

استاد دامن بھی باغبانپورہ ہی میں اپنے والد کی دکان پر بیٹھتے تھے تب درزیوں اور حجاموں کی دوکانوں ہی میں سیاسی بحث و مباحثہ ہوتا تھا بلکل اسی طرح جیسے آجکل ٹی وی ٹاک شوز میں ہوتا ہے۔ مگر تب کے درزی اور نائی آجکل کے اینکر پرسنز کی طرح ڈنڈی نہیں مارتے تھے۔ استاد دامن کی نظم کمیٹی جو ان کی ابتدائی شہرت کا باعث بنی وہ بھی باغبانپورہ ہی میں تجاوزات کے خاتمہ کے نام پر ہونے والی توڑ پھوڑ کے خلاف احتجاجی جلسہ میں پڑھی گئی۔ اس نظم کے تیس اشعار جلسہ کے آغاز اور تیس ہی اختتام پر پڑھے گئے۔ اس نظم سے استاد دامن پنجاب بھر میں مقبول ہوگئے تھے۔

کانگریس کے سرگرم ترین رہنما پنڈت جواہر لعل نہرو کی لاہور میں میزبانی میاں افتخار الدین کرتے تھے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے جب پہلی بار استاد دامن کی نظم اپنے جلسے میں سنی تو انہیں گلے لگایا اور ایک سو روپے انعام کے طور پر دیئے۔ اس کے بعد جب بھی نہرو لاہور آتے استاد دامن کو ضرور ملتے بلکہ اپنے ساتھ دیگر شہروں میں ہونے والے جلسوں میں بھی لے کر جاتے اور جلسہ کے اختتام پر اپنی تقریر سے قبل ان سے نظمیں پڑھواتے۔

استاد دامن کا نظریہ مساوات تھا جبکہ میاں افتخارالدین کی تمام سیاست اور عزت ان کی دولت تھی اس لیے اکثر استاد دامن کی باتیں انہیں ناگوار گزرتی تھی۔ ایک بار استاد دامن نے میاں افتخار الدین کو کہا کہ اگر تم سے دولت لے لی جائے تو باقی تم کیا بچو گے؟ ڈولے شاہ کی چوئی؟۔ اسی طرح ایک بار استاد دامن اور جواہر لعل نہرو میاں افتخارالدین کے ساتھ ان کی گاڑی میں لائل پور جا رہے تھے کہ میاں افتخارالدین نے استاد دامن کی کسی بات سے ناراض ہو کر انہیں تھپڑ مار دیا۔ استاد دامن رو پڑئے جواہر لعل نہرو نے میاں افتخارالدین سے فوری معافی منگوائی۔ اسی طرح ایک بار نہرو نے میاں افتخارالدین کے ساتھ کہیں جانا تھا روانگی سے پہلے استاد دامن کی عدم موجودگی پر ان کو بلوانے اور ساتھ لیجانے کا کہا۔ میاں افتخارالدین کا ملازم بلانے کیلئے آیا استاد دامن نے کہا تم چلو میں آتا ہوں۔ کچھ دیر بعد ملازم پھر آیا۔ تھوڑی دیر گزری دوسرا ملازم آ گیا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ میاں افتخارالدین خود استاد دامن کے گھر انہیں لینے آ گیا۔ استاد دامن نے کہا کہ میں نہا لوں پھر چلتے ہیں یہ کہہ کر غسل خانہ میں چلے گئے۔ یہ گھر کیونکہ درزیوں کا تھا اور اس میں میاں صاحب کے بیٹھنے کیلئے ان کے شایانِ شان کوئی جگہ نا تھی اس لیے وہ کھڑے ہو کر ان کا انتظار کرنے لگے۔ استاد دامن عام طور پر اگر دس منٹ میں غسل کرتے تو اس دن آدھا گھنٹہ میں تیار ہو کر آئے۔ میاں افتخارالدین یا اس طرح کے کسی دولت مند کو اتنا انتظار آج بھی شاید ہی کوئی کروا سکے۔ تاخیر کی وجہ سے استاد دامن کے گھر سے میاں افتخارالدین کی حویلی جانے کیلئے تانگہ لیا گیا۔ میاں افتخار الدین کی حویلی پہنچ کر جب تانگہ سے اترئے تو استاد دامن نے تانگے والے کو ایک سو روپے کرایہ دینے کا کہا۔ میاں افتخارالدین غصہ میں آ گئے مگر کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔ استاد دامن نے کہا نا دو کرایہ میں نہرو کو کہتا ہوں وہ دیدے گا۔ میاں افتخارالدین کو تانگے والے کو مجبوراً ایک سو روپیہ کرایہ دیا پڑا جبکہ اس وقت سالم تانگہ کا کرایہ چار آنے یا آٹھ آنے سے زائد نہیں تھا۔ کافی عرصہ بعد استاد دامن سے پوچھا گیا کہ آپ نے اتنا کرایہ کیوں دلوایا تو استاد دامن کا کہنا تھا کہ میاں کو کوئی فرق نہیں پڑا تانگے والے کو اور اس کے خاندان کو اس سے بہت فرق پڑا۔

استاد دامن کی زندگی اصحاب اختیار و اقتدار سے ایسی گستاخیاں کرتے ہی گزری۔ اگست 1947 کی تقسیم ہند سے پاکستان اور بھارت دو علیحدہ ملک بن گئے۔ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔صدیوں سے ساتھ رہنے والے مذہب کے نام پر ہونے والی تقسیم سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ ان فسادات سے جو نفرتیں پروان چڑھی وہ آج تک پھل پھول رہی ہیں۔ انہی نفرتوں کے باعث مفربی ممالک کی اسلحہ کی صنعت خوب منافع میں رہتی ہے۔ انہی نفرتوں کا شکار استاد دامن بھی ہوئے جب مسلم لیگ کے کارکنان نے استاد دامن کو کانگرسی کہہ کر ان پر ہلہ بول دیا انہیں شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا انہیں ادھ موا یعنی اپنی طرف سے مار کہ پھینک دیا۔ ان کا تمام کلام، کتابیں، گھر اور دکان تمام سامان سمیت جلا دی گئیں یا دوسرے الفاظ میں فتح کر لی گئی۔ اس پر استاد دامن کا کہنا تھا کہ

میرے جگر اتے ڈاڈھے پھٹّ لگے،
اکھاں بھر آئیاں میرا دل رویا
چمن والیو تسیں گواہ رہنا،
پنچھی چیکھدا چیکھدا کس کوہیا
گولی ساہمنے ہی اہتے وجنی ایں،
‘دامن’ اج مویا بھاویں کل مویا
ایہہ کہانیاں جگّ تے پینگیاں،
کہڑی آکھدا آکھدا گلّ مویا

استاد دامن کے پاس مال اسباب میں صرف سانسیں بچی تھی وہ انہی کا بوجھ لے کر زندگی کی دوسری ہجرت پر مجبور ہو کے لاہور کی بادشاہی مسجد پہنچے اور کئی مہینے اس کے شمال کی طرف والے برآمدے میں رہتے اور سوتے رہے۔ یہیں مشہور شاعر سائیں اختر لاہوری ان کے شاگرد ہوئے۔ اسی دور میں استاد دامن نے یہ نظم کہی۔

آہمو ساہمنے دو دو ہونگیاں،
جیکر حشر دہاڑے حساب ہویا
کہندے زندگی ربّ دی کرم بخشش،
میرے واسطے ایہو عذابِ ہویا
اوہدے وچ کی لہو ہے پین جوگا،
جیہدا بھجّ کے جگر کباب ہویا
کجھ نہ کجھ تاں ہونا چاہیدا اے،
کی گناہ ہویا کی ثواب ہویا
تیری جنت اے اودھر، نہیں دل آؤندا،
جتھوں پہلوں سی کدے جواب ہویا
خزاں رہے حیاتی دے باغ اندر،
کھڑ کے دل نہ کدے گلاب ہویا
دولت خانے دا میرے کی پچھدے ہو،
دولت لٹّ گئی خانا خراب ہویا۔

اندرون لاہور ترنم سنیما چوک میں شیخ رفیع صاحب کا کھانے کا ہوٹل تھا۔ استاد دامن اس ہوٹل پر آتے وہاں سے کھانا کھا کر کھانے کے پیسے لکھنے کا کہہ کر چلے جاتے۔ جب ادھار کی رقم کافی بڑھ گئی تو ایک دن ہوٹل ملازم نے ہوٹل مالک کو بتایا کہ ایک پہلوان آتا ہے کھانا کھا کر حساب میں لکھوا جاتا ہے اور اب حساب طویل ہو رہا ہے۔ شیخ رفیع نے اگلی بار ان کی آمد پر نشاندہی کرنے کا کہا۔ اگلی بار وہی پہلوان اس ہوٹل میں آئے تو ملازم نے ایسا ہی کیا۔ شیخ رفیع صاحب نے (جو خود بھی علم و ادب کے قدر دان تھے) ان صاحب سے پیسے تو نہیں مانگے البتہ ان کی مشکل یا پریشانی جاننے کیلئے ان سے بات چیت کی تو چند منٹ میں ہی ان پر یہ راز آشکار ہوا کہ یہ شخصیت مشہور شاعر استاد دامن ہیں یوں ان کی دوستی ہوگئی۔ ان ہی کے تعاون سے استاد دامن نے ٹکسالی دروازہ کے اندر پرانی شاہی مسجد جو اپنی اصلی حالت میں قائم لاہور کی سب سے قدیم مسجد ہے کا ایک حجرہ جو اس سے قبل شاہ حسین صاحب سے منسوب تھا محکمہ اوقاف سے سے کرایہ پر حاصل کیا۔ اسی حجرہ کے بلکل اوپر مولانا ابوالکلام آزاد کی رہائش رہی۔ اب مولانا ابوالکلام آزاد والے حجرہ میں اس مسجد کے خطیب کی رہائش اور استاد دامن والے حجرہ میں استاد دامن اکیڈمی قائم ہے۔

اسی حجرہ میں بیٹھ کر دیگر معروف شعرا نے شعرہ آفاق کلام تخلیق کیا جن میں ایسے شاعر بھی تھے جو استاد دامن کی زندگی میں ایسا کلام لکھتے رہے کے آج بھی دنیا بھر میں مقبول ہے مگر استاد دامن کی وفات کے بات ایک بھی مشہور شعر نا کہہ سکے۔ استاد دامن سے ملنے کیلئے لاتعداد معروف شخصیات اسی بیٹھک میں آتے رہے۔ معروف اداکار علاوالدین جو استاد دامن کے بیٹے بنے ہوئے تھے جب شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے تو انہوں نے ایک بڑی کوٹھی بنوائی۔ وہاں استاد دامن کیلئے خصوصی ڈیرہ بنوایا۔ اس کوٹھی کے افتتاح کی تقریب رکھی۔ استاد دامن سے وہیں مستقل رہائش کی ضد کی مگر استاد دامن نے تقریب کے فوری بعد کہا کہ مجھے واپس اسی حجرہ میں چھوڑ کر آو۔ استاد دامن نے باغبانپورہ میں اپنے ساتھ ہونے والی دہشت گردی کے بعد کبھی کچھ تحریر نہیں کیا جو بھی کہا زبانی کہا۔

مئی 1950 میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اپنی اہلیہ کے ہمراہ امریکہ کے دورے پر گئے جہاں پاکستان کی خاتون اول بیگم رعنا لیاقت علی خان نے غرارہ زیب تن کیا تھا۔ استاد دامن نے اس دورے پر اور دورے میں بیگم کو ساتھ لیجانے پر تنقید ان الفاظ میں کی۔

بیگم کی کہندی غرارہ کی کہندا
ساڈے وزیراں دا کی پوچھ رہے او
جے دورہ وی پیندا تے امریکہ دا پیندا۔

اسی طرح پاکستان میں بار بار حکومتیں بدلنے لگی تو استاد دامن نے یہ الفاظ ادا کئے۔

پتہ لگدا نہ کوئی فرنگیاں دا،
ایہہ کہڑے مضمون تک پہنچ گئے نے
ویلے لدّ گئے تھوک لداؤن والے،
چھوٹی موٹی پرچون تک پہنچ گئے نے
اڈدے روسی سیارے نوں ویکھ کے تے،
ایہہ امریکہ جنونّ تک پہنچ گئے نے
گھر کپاہ دا تن تے لیر کوئی نہ،
بہانے کوٹ پتلون تک پہنچ گئے نے
کنکاں ہندیاں وی روٹی لبھدی نہ،
آٹے بھڑک کے لون تک پہنچ گئے نے۔
ہندوستانی ریاستاں صاف کرکے،
برما چھڈّ رنگون تک پہنچ گئے نے
پاکستانیئے، واہ سبحان اﷲ،
لیاقت علی توں نون تک پہنچ گئے نے۔

جب 2 جون 1953 کو موجودہ ملکہ برطانیہ ایلزبتھ الیگزینڈرا میری ونڈسر کی تاج پوشی ہوئی تو یہ کہا گیا کہ اس کی حکومت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔ اس بیان کی وجہ یہ تھی کہ ملکہ ایلزبتھ دوم نا صرف برطانیہ بلکہ بہت سے یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان سمیت بہت سے ایشیائی اور افریقی ممالک کی بھی ملکہ بنی یہی نہیں براعظم امریکہ میں کئی ملکوں اور براعظم آسڑیلیا کے تقریباً تمام ممالک پر اس کی حکومت قائم تھی۔ استاد دامن جو شروع ہی سے انگریز کے خلاف تھے اس بیان پر خاموش کیسے رہہ سکتے تھے ان کا ردعمل لاجواب تھا۔

ایہہ حکومت برطانیہ شان والی،
ایہدی شاہی وچ سورج نہیں ڈھل سکدا
ملکہ بحر دی رانی ہے دھرتیاں دی،
ولاں ایہدیاں کوئی نہیں ول سکدا
ساری دنیاں ہے ایہدی کمانڈ ہیٹھاں،
دلاں ایہدیاں کوئی نہیں دل سکدا
ایہہ وکھری گلّ اے، ایس ویلے،
ایتھے رات نوں دیوا نہیں بل سکدا۔

تب بلیک آوٹ ہوا کرتا تھا یعنی رات کو دیا روشن یا کسی بھی طرح روشنی کرنے پر پابندی تھی اس وقت برطانوی افواج کورین، ملائین، عرب اور افریقی محاذوں پر لڑائی کر رہی تھی۔ اسی دور میں استاد دامن بھارت مشاعرہ پر گئے جس کی صدارت استاد دامن کے سابق دوست اور تب کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کر رہے تھے۔ استاد دامن نے وہاں نظم پڑھی کہ

بھاويں مونہوں نہ کہیے پر وچوں وچی
کھوئے تسی وی او، کھوۓ اسی وی آں
ایہناں آزادیاں ہتھوں برباد ہونا
ہوئے تسی وی او، ہوئے اسی وی آں
کجھ امید اے زندگی مل جا‎ۓ گی
موئے تسی وی او، موئے اسی وی آں
جیوندی جاں ای، موت دے منہ اندر
ڈھوئے تسی وی او، ڈھوئے اسی وی آں
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی اور سوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روۓ تسی وی او رو‌ۓ اسی وی آں

اس مشاعرے کا اختتام اسی کلام پر ہوا نہرو نے استاد دامن سے بھارت میں مستقل رہائش کرنے کی درخواست کی جس کے جواب میں استاد دامن کا کہنا تھا کہ میں نے رہنا لاہور ہی میں ہے چاہے جیل میں ہی کیوں نا رہنا پڑھے۔ (جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں