گلگت کی وادی حراموش پارٹ 1 (سید صفدر رضا)

گلگت بلتستان کی دعوت ہمارے دوست ابرار بھائی کئی مرتبہ دے چکے تھے مگر دانش جو ہمارا شاگرد بھی تھا اور موصوف کے چچا ہمارے دل و جان ہیں انکے گھر میں ہمیں سکردو گلگت آنے کے بے حد اسرار نے ایکبار سوچنے پر مجبور کردیا ہمارے استفسار پر کیا کچھ لانا ہوگا دانش کہنے لگا آپ گلگت آجائیں آگے ہماری ذمہ داری اندھا کیا مانگے دو آنکھیں ہم نے وعدہ کیا اور ہم نے آبرار بھائی کو اپنی آمد کی اطلاع کی اور سازو سامان جو زاد راہ ہوسکتا تھا ساتھ لیا لاہور کو خدا حافظ کہا اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد ایبٹ آباد مانسہرہ غرض کاغان ناران چلاس سے ہوتے ہوئے گلگت پہنچےرات اور دن کے اوقات میں کئی دلکش منظر دیکھے مگر منزل گلگت تھی جہاں ہمارے رہنے کھانے پینے کا پر تکلف اہتمام تھا یہ سب اپنی جگہ آبرار بھائی کی گلگت میں اپنی ورکشاپ ہے اور انہوں نے اپنی پراڈو کی جانچ پڑتال کی اور انکے دوست کی گاڑی بھی ہمارے قافلے میں شامل ہوئی دانش بھی ہماری اطلاع پر گلگت پہنچ گیا تھارات بھرپور تیاری میں گزری اور سامان کی گاڑیوں پر منتقلی مکمل ہوئی صبح ہمیں اک ایسی وادی میں لیجایا جارہا تھا جس کا تذکرہ دانش نے لاہور میں کیا تھا جہاں اس کے بھائی کی سسرالی فیملی رہتی تھی جس کے اشتیاق نے ہمیں یہاں آنے پر مجبور کیا تھا وقت گزر نہیں رہا تھا دانش کی لفظی عکاسی نے جو کچھ ہمارے ذہن پر نقوش چھوڑے تھے اب آنکھیں انہیں دیکھنے کے لئے مضطرب تھیں رات نیند بھرپور لی سفر تو ابھی شروع ہونے جارہا تھارات نے آغوش میں لیکر جیسے لوری سنادی ہو پھر آنکھ اذان کی پہاڑوں سے ٹکرانے والی بازگشت پر کھلی سبحان تیری قدرت کی پرندوں کی تسبیح کی صدا خوب روحانی و ایمانی ترو تازگی بخش رہی تھی ہم گناہگاروں نے خالق کائینات کی تسبیح و تقدیس سےفارغ ہو کر تیاری کی اور باد صبا کے خنک جھونکے ہماری طبعیت کو لبھا رہے تھے گاڑیوں میں سامان پہلے ہی رکھا جا چکا تھاابرا بھائی نے خاصا اہتمام کر رکھا تھا ناشتہ کیا تو آبرار بھائی کی ھدایت تھی کہ اگر سیر سے۔لطف اندوز ہونا ہے تو دن بھر۔میں ایک ناشتہ ایک کھانا ہوگا ہم سب گاڑیوں میں ایسے بیٹھے جیسے نونہال خوشی سے نہال ہوتے ہیں گاڑی چلی اور ہم کچھ دیر بعد ہی شاہراہِ قراقرم پر پہنچ گئے اب شاہراہِ کے قصیدے شروع ہوئے گلگت کے دوستوں نے ہمیں اپنی قابلیت سے آگاہ کرتے ہوئے ایک بولا یہ چین کے شہر اور جسکا ذکر ڈاکٹر علامہ اقبال نے کیا ہے کاشغر تک جاتی ہے تو ایک بولا یہ دنیا میں کسی عجوبے سے کم نہیں اس کی تعمیر 1966 میں شروع ہوئی تھی جس میں ہمارا اہم قومی ادارہ فرنٹئر ورکس ارگنائیزیشن بھی وجود میں آیا تھا جس کے پینل پر بہت سے اہم ملکی منصوبے ہیں آواز ائی کئی سرنگیں اور چھوٹے بڑے پل ہیں پہاڑوں کو کاٹ کر ایسا راستہ بنایا گیا ہے کہ آپ موٹر بائیک پر بھی۔سفر کر سکتے ہیں پاک چین دوستی اور دونوں ملکوں کے بے شمار افراد کی قربانی کا ثمر ہےعطا آباد جھیل اسی کے کنارے پر۔موجود دعوت نظارہ دیتی ہے ہماری ان ہی معلومات کے درمیان سکردو موڑ آگیا دائیں جانب مڑتے ہوئےN-35چھوڑتےہوئے عالم برج جو ایک سسپینشن برج۔تھا لکڑی کے موٹے تخٹوں اور لوہے سے بنا ہوا تھاپیدل عبور کیا نیچے دریا کا پانی جولانیاں مار رہا تھاایک وقت میں ایک ہی سمت گاڑی گزر سکتی ہےپل عبور کرتے ہی اسکردو روڈ جسےS-1کہتے ہیں شروع ہو رہا تھادل میں ملے جلے جذبات جنم لے رہے تھے جب قراقرم پر۔سفر کر لیا ہو تو یہ روڈ اپنی کہانی خود ہی بیان کر رہا تھااب ہم تقریبا45کلو میٹر کا سفر یعنی ایک گھنٹہ کی مسافت طے کر چکے تھے اب نسبتا کم چوڑا راستہ اور سر سبز درخت اور جس جانب ہم جارہے تھے سفر خاصہ تھا مگر دریائے سندھ کہ رہا تھا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گارفتہ رفتہ ہم بلندی کی جانب اور دریا پستی کی جانب رواں دواں گہرا ہوتا جارہا تھاسکردو روڈ بہت اچھا نہ سہی مگر بہتر تھا جوں جوں آگے بڑھ رہے تھے سفر پر خطر ہوتا جارہا تھا مگر گردونواح کے مناظر کی کشش بھی بڑھتی جارہی تھی فضا کا مسحور کن ماحول میں تبدیل ہونا اس بات کا اعلان تھا کہ ہم اپنی دنیا کے شور شرابے سے دور آگئے ہیں اگر ہماری سماعتوں کو کسی آواز کا احساس تھا تو دریا کے پانی کی سنگلاخ چٹانوں اور پتھروں سے ٹکرا کر پیدا ہونے والی صدا تھی جیسے خوشی کے لمحات میں ڈھول کی بلند تھاپ بھی سماعتوں پر گراں نہیں گزرتی بلکہ جسم کو رقص پر مجبور کر کے نجانے کس لمحے تھرکنے جھومنے میں مشغول کر لیتی ہے کبھی کبھی گہرائی دیکھ کر ڈر کے وقت دریا کا شور کانوں کو خوب بھلا لگ رہا ہوتا ہےبلدار راستہ تھا کبھی گاڑی میں دائیں کبھی بائیں ٹکراتے تھے ڈرائیور کی مہارت کی داد دیئے اور حوصلہ افزائی کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہ تھا ہمارے دوستوں میں جن ہمراہیوں اور دوستوں کا اضافہ ہوا تھا وہ دونوں جانب بلند پہاڑ اور انکے درمیان ان پہاڑوں کو چیرتا چنگھاڑتا دریائے سندھ تھا جس کی گہرائی ایک جانب جبکہ دوسری جانب فلک بوس پہاڑی سلسلہ ہمارے ساتھی ہیں سکردو موڑ سے لگ بھگ گھنٹہ بھر کے سفر کے بعد سسی گاؤں آتاہے شکوت کے مقام پر دو ہوٹل ملے جہاں پی جانے والی لب دوز لب سوز چائے کا ذائقہ آج بھی زبان سے وابسطہ ہے ہم نے چائے کے دوران کسی چنگھاڑ کی آواز یا مسلسل شور سنا ہمیں ہوٹل کے ٹیبل مین تو نہیں کہوں گا ٹیبل بوائے نے بتایا صاحب جی یہ پیچھے آبشار کی آواز ہےیکدم آبشار دیکھنے کی امنگ نے دل میں انگڑائی لی ہم موصوف کے ساتھ ہوٹل کے عقب میں بھرپور آبشار دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ اگر چائے اور سنیک کے بعد ہی روانہ ہوجاتے اور اتنی بڑی آبشار نہ دیکھتے تو اس جنت میں بھی کسی نیکی کے نہ کرنے کی خود کو سزاوار گردانتے آبشار کے بالکل قریب تو نہ جاسکے مگر جہاں کھڑے تھے رونگٹے بھی کھڑے ہو تے محسوس ہورہے تھے جیسے پانی کے گرنے سے برقی چارج پیدا ہو رہا ہوہمارے پوچھنے پر کہ اس آبشار کا کوئی نام اور اس کا نقطئہ اخراج کہاں ہے تو کہنے لگا ہمیں زیادہ معلوم نہیں بس اتنا ہی پتہ ہے کہ اس کو آبشار کہتے ہیں اور لوگ ہمارے ہوٹل کو آبشار والا ہوٹل کہتے ہیں دریا کے پکارنے پر آبشار کا شور ٹھنڈک اور اسکی پھوارابشار کے پانی کو جیسے دلہن کا ہاتھ رخصتی کے وقت دولہا کو تھماتے ہیں بہ عین ہی دریا کی سپردگی میں رخصت کیا جارہا تھا دانش نے بھی رخصتی کا اعلان کیادانش نے آبرار بھائی سے کہا ہمیں اپنی گاڑیاں واپس بھیج دینی چاہئیں اور مقامی افراد کی جیپیں اور پوٹرز ہمراہ لینے چاہئیں آبرار بھائی نے مشورہ مانا اور پچھلی گاڑی کو روک کر فیصلے سے آگاہ کیا اور وادی حراموش کے ٹریک سے آگاہ پورٹر اور گائیڈ ہمراہ لینے کا فیصلہ سنایا گیا جس کو من و عن تسلیم کیا گیا اور گاڑیاں واپس بھیجنے کے لئے اسرار اور راشد کی ذمہ داری لگی اور سسی کے علاقے سے ہی جیپوں پورٹرز اور گائیڈ کی صورت میں قافلہ مزید بڑا ہوگیاباورچی لینے کے مشورہ کو ہم نے رد کیا اور جیپوں پر اپنا سامان رکھوایا اور سفر پھر سے شروع ہواجیسے بچپن میں عیدی کچھ جھولے جھولنے اور پیسے خرچ ہونے کے بعد ہاتھ تنگ اور خواہشات سمٹنا شروع ہوتی تھیں ایسے ہی ہمارا سفر آگے کی جانب ہوتے ہوئے راستہ تنگ موڑ جان لیوا ہوتے جارہے تھے اور دل اس لئیے مطمعین ہو جاتا کہ ڈرائیور اور گاڑی کو ان راہوں سے کمال واقفیت ہے اور ہمارے طرح کمزور دل نہیں ہیں بلکے ان پتھروں میں رہ کر یہ ڈرائیور پتھر دل ہوچکے ہیں اور ہم شور مچاتےدریا کے پانی کی مانند نرم دل ہیں کچھ رستہ تو اس قدر سکڑ جاتا کہ ڈرائیور کو بارہا ھدایات جاری کرنا پڑیں کہ ھاتھ اور سر گاڑی سے باہر نہ نکالیں ہم تو اس خوف میں مبتلا ہو گئے کہ اب یہ ھدایت نہ سنا دی جائے کہ نظر باہر نہ نکالیں کہیں چکرا نہ جائیں ایسے میں ہمارے ایک ساتھی نے کمال مہارت سے خطرناک موڑ کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کیا جس پری پر ہم سوار ہیں یہ گنگناتی بھی ہے یعنی اس میں ٹیپ ریکارڈر یا موسیقی کا کوئی اہتمام ہے دانش بھانپتے ہوئے گویا ہوا سنگیت تو آپ سنتے رہتے ہیں اپ چلنے والی ہواسے درختوں کی سرسراہٹ اور آب رواں کے تال میل سماعت فرمائیں اور فطرت کے ان مناظر کو قدرت کے وسیع وعریض کینوس پر ملاحظہ فرماسکتے ہیں یہ کیا اعلان ہوا کہ گھنٹہ بھر بھی سفر نہ کیا ہوگا کہ جیپ کو خیرآباد کہنا پڑا اور اب جسم کے تمام اعضاء وقوت یکجا کر کے پیدل ہائیکنگ کا آغاز ہونے جارہا ہےسب نے اپنے جوگرزاور کمر کے بیگ ایسے کسے جیسے جہاز کی اڑان سے قبل بیلٹ باندھنے کے اعلان پرتمام مسافر بیلٹ باندھنے میں مصروف ہوتے ہیں ہمارے گائیڈ نے کہا یہ ہائیکنگ اس وقت مشکل۔ہوجاتی ہے جب بارش ہو جائے دعا فرماتے جائیں موسم بہترین ہے ہمت والوں کو کٹھن راستہ کچھ نہیں کہتا ہم نے جیسے کچھ سنا ہی نہیں ہردو جانب پہاڑ سر بلند تھے درخت چھدرے ہو رہے تھے ہم سوچ رہے تھے شاید دانش اپنے زمانہ طالبعلمی کی سخت گھڑی کا خوبصورت اور مؤدب انداز میں بدلہ لے رہا ہے جس میں بدتمیزی یا بد تہذیبی کا شائبہ تک نہ تھا یہ ہمارا وہم تھا اب کوئی باقاعدہ سے طے شدہ راستہ نہ تھا بلکے چھوٹے بڑے پتھروں پر مشتمل خود ساختہ رہگزر ہےاغا شورش کاشمیری کا مصرع یاد آرہا تھا کہ ان ہی پتھروں پر جل کر اسکو تو آؤ

اب سرسبز میدانی علاقہ پھلدار درختوں اور ان سے آگے کیمپنگ کرنے کا ارادہ بن رہا تھادانش نے بتایا اس گاؤں کو سپلی کہتے ہیں کیمپ لگا کر فارغ ہو جائیں پھر میں یہاں ایک جاننے والے ہیں ان سے ملواتا ہوں ہم نے تو ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا ہم ہونگے اور بستر ہوگا ہم کہیں نہیں جارہے طے یہ پایا دانش ان کا مہمان بنے ان سے ملےدانش نے کہا میں گیا تو صبح ہی آؤں گا ہم نے اس شرط پر اجازت دی کہ آفتاب سے پہلے آپ ہمارے پاس ہونگے دانش پوٹرز اور گائیڈ سے شینا زبان میں کچھ گفتگو کی اور ان کے ساتھ ہی نکل گیااب ہم سب نےکھانا بنانے کی بجائے فروٹ پر گزارا کرنا مناسب جانا سب ہی خوب تھک چکے تھے کسی میں کچھ کرنےکے کی ہمت نہ تھی ہم سب جہاں کیمپنگ کے لیئے تیار ہوئے وہاں ہم سے پہلے کسی نے کیمپنگ کی ہوگی کچھ جلی ہوئی لکڑیوں کی باقیات اس بات کی غماز تھیں اورکچھ ریپر وغیرہ ہم نے فاتح شہنشاہ کی طرح پڑاؤ کی تیاری مکمل کی ایک کیمپ میں سلیپینگ بیگ پوٹرز حضرات اور اپنے گائیڈ نوید کی سربراہی میں دیتے ہوئے درخواست کی کہ کوئی صاحب تمباکو نوشی نہ فرمائے ہم الصبح یہاں سے روانگی کریں گے سورج اب پہاڑوں کی اوٹھ میں جا چکا تھا رات کی سیاہ چادر ماحول پر طاری ہوتی جارہی تھی پہاڑوں اور ان کے درختوں کے ہیولے خوف اور سحر میں لے رہے تھے دعا کرتے ہوئے کہ کل صرف راستے کی دشواری ہی کافی ہے موسم اپنی مہربانی ہمارے ساتھ رواں رکھے سفر کی سختیاں تھکاوٹ کے احساس کو صرف بھرپور نیند ہی مٹا سکتی تھی ہم نےخود کو سلیپنگ بیگ کے حوالے کر کے اگلے مرحلے کی خوبصورتی و مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے آپس میں مزید مشکلات کے بارے گفتگو کرتے ہوئے نیندکی گود میں جا گرے ھم دن بھر کی مسافت کے بعدرات کو ایسے سوئے کہ پڑ کر ہوش نہ رہا کیونکہ رات میں لکڑیوں کا الاؤ روشن کیا گیا اور رہ جانے والے پوٹروں کی ڈیوٹی لگی کہ باری باری جاگ کر پہر ہ دیا جائےہم جنگلی جانوروں سے خوفزدہ تھے جبکہ دن میں ہمیں کوئی ایسی خطرناک جنگلی حیات نہ دیکھنے کو ملی نہ سنا تھاغیر مانوس جگہ کی وجہ سے احتیاطی تدبیر کے سبب ایسا کیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں