گلگت کی وادی حراموش پارٹ 2 (سید صفدر رضا)

حیرانی اس وقت ہوئی جب دانش سورج طلوع ہونے سے قبل ہی آگیا اور اس کے ساتھ آیک اور صاحب تھے دانش بڑے مؤدب انداز میں بیدار کر نے کی کوشش میں مصرو ف تھا آبرار بھائی نے ساتھ دیتے ہوئے ہمیں بیدار کر دیا ہم آنکھیں مل مل کر کبھی خود کو اورکبھی دانش کو دیکھتے تھے کہ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں یہ اخوند بھائی ہیں ہم نے رات انکو تنگ کیا اور شب انکی طرف بسر کی ہمیں احساس ہوا کہ ہم واقعی بیدار ہو چکے ہیں پرندوں کی چہچہاہٹ بھی ہماری سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی دانش کہنے لگا فجر کب کی ہو چکی ہے اب سب کو اٹھا دیا جائے اور جلد ہی یہاں سے روانہ ہوا جائے مگر اس سے قبل ناشتہ کر لیا جائےواقعی بھوک کا احساس ہو رہا تھا کیونکہ رات کسی نے بھی کھانا نہیں کھایا تھا ہم اٹھے بستر چھوڑا سب آٹھ چکے تھے پیسٹ کے ارادے سے بیگ کی جانب لپکے ابھی برش نکالا ہی تھا کہ آخوند صاحب بولے جناب یہاں بھی پیسٹ استعمال کیا تو کیا کیا انہوں نے باہر جاکر ہمیں لکڑی کی مسواک لا کر دی اور کہنے لگے یہ کریں اور بتانے لگے کہ اسکے بہت فائدے ہیں ہم نےاپنے بزرگوں کو یہی استعمال کرتے دیکھا ہے اور ہم بھی یہی استعمال کرتےہیں ہم مسواک سے فارغ ہوئے توصبح صادق آفتاب کی کرنیں ہمارے چہروں پر پڑنے پر اس خنکی میں عجیب سی راحت و فرحت بخش رہی تھیں ہم نے اپنی زندگی میں اتنی دلکش و حسین صبح پہلی بار دیکھی تھی ذات کبریا کی نعمتیں اس۔اشرف المخلوقات کے لئیے ہر وقت ہر جاہ موجود ہیں ناشتے کے لئیے فرش محمدی بچھ چکا تھا سب اس پر براجمان ہوچکے تو آخوند صاحب کی جانب سے پراٹھے اور کھٹے آلوؤں کا ناشتہ پیش کیا گیا دانش نے کہا کہ میرے منع کرنے کے باوجود آخوند صاحب نے یہ اہتمام کیا جو واقعی کسی من وسلوی سے کم نہ تھا دیسی گھی کے پراٹھے کھٹے آلو اور پھر سبز۔چائیے کا مز ا اردگرد فلک بوس پہاڑ ہر سو سبزہ نیلے اودے قرمزی پھول اور پھلوں کے درختوں کے درمیان اور ہی دوبالا ہو گیا اگر کمی تھی تو پانی کے جھرنوں ندی نالوں کی جو ہم سے دور تھےسب نے پر تکلف اور بھرپور ناشتہ کیا آخوند صاحب کی مہمان نوازی پر ممنون تھےایسے میں یہ کسی بھی نعمت سے کم نہیں تھا اور فوراً ہی ابرارصاحب اور گائیڈ نے فوجیوں کی مانند سفر کے آغاز کا اعلان کیا کمال مہارت اور پھرتی سے سامان سمیٹا اور پھر اک منزل سے اصل منزل کی جانب چل پڑے پوٹروں کے اور گائیڈ کے درمیان راستے کے انتخاب پر کچھ دیر بحث ومباحثہ ہوا ہم نے گائیڈ کی ہی بات مانی اور چل پڑےسخت چڑھائی ہماری ہمت کو آزما رہی تھی ہم بھی تازہ دم تھے ابتدائی قدم تیز تیز اٹھے مگر چڑھائی نے سانس پھلا دیا سامنے حراموش کی وادی اور چوٹی ہمیں اپنی جانب بلارہی تھی ہر موڑ کے بعد نیا امتحاں موجود ہوتا اور گائیڈ اور پوٹر کہتے بس یہ سامنے ہی حراموش ہے ہم اشارہ بعیید کرتے ہوئے پوچھتے وہ ہ ہ۔۔۔۔سامنے جانا ہے اب ہمارے سامنے شکر ہے کچھ ہموار راستہ آیا جو کسی طرح بھی ہمیں لاہور کی ٹھنڈی سڑک سے کم نہ لگا آخوند صاحب جو ہماری دعوت پر ہمارے ہمراہی ٹھہرے تھے بولے ہمیںاس نالے کے ساتھ ہی رہنا ہے یہ یہاں سے یہاں کے واحد واٹر چینل کو پانی بہم پہنچتاہے اب آگے کوئی مستقل راستہ نہ ہے ہوا بھی یوں ہی کبھی راستہ معلوم ہوتا اور کبھی پتھریلا ہوجاتا کہیں چھوٹے پتھر تو کبھی بڑے اور چکنے پتھر جن کی جڑوں میں جڑی بوٹیاں سر نکالے دکھائی دیتیں اب نالہ عبور کرنا تھا جو گہرا تو معلوم نہیں ہو رہا تھا مگر بیچ میں پڑے پتھروں سے پانی ایسے ٹکرا رہا ہے جیسے پانی انکے پیچھے سے اچھل اچھل کر نہ صرف ہمیں دیکھ رہا ہو بلکہ اٹھکیلیاں کرتا محسوس ہورہا ہے ڈھلوان کی وجہ سے پانی کا بہاؤ خاصہ تیز ہےاخوند صاحب نے کہا کوئی جلدی نہ کرے قدیم سنبھال کر اور جما کر رکھنا ہےپتھر چکنے اور نوکیلے ہونے کے باعث اپکو نقصان نہ پہنچائیں ابھی ہم ھدایات ہی سن رہے تھے کہ ہمارے پوٹر نالہ عبور بھی کر چکے تھےخیر ہم نے حسب سابق اپنے اندر کے خوف کو چھپاتے ہوئے دانش کا ھاتھ تھاما اور اللہ اللہ کرتے اور کلام الٰہی کا ورد زیر زبان کرتے ہوئے نالہ عبور کیا ہمارے گائیڈ نے احسانا بتایا راستہ تو اس پہاڑ کی جانب سے بھی جاتا ہے مگر چڑھائی انتہائی بدترین ہےیہ راستہ آپ شہریوں کے لئیے مناسب ہے اب ہمارے سامنے کوئی مال روڈ نہ تھا بلکہ پتھروں پر اور پتھروں کے درمیان نالے کے ساتھ ساتھ ہی چلنا پڑ رہا تھا وہ قدم جو شروع میں تازہ دم تھے اب خراماں خراماں اٹھ رہے تھے ہم دل ہی دل میں کڑ رہے تھے کہ وہ کون سا لمحہ تھا جو ہم سے غلطی سرزد ہو گئی مگر ہم سیاحت کے بڑے دلدادہ مشہور تھے یہ ہی بات سب تکالیف با امر مجبوری ہنس ہنس کر برداشت کر رہے تھے اب پھر چڑھائی شروع ہو چکی تھی مگر ان حالات میں فطرت کے مناظر تیز بہتے پانی کا جلترنگ اور بہاؤ راستے کے قدرتی کینوس پر پھیلے فطرت کے سبز پیلے اودے نیلے شوخ رنگ اس خالق کائینات کی بے ٹباتیاں اپنی جانب ایسے محو کر لیتیں کہ ہم خود کو خوش قسمت ترین شخص قرار دیتے ہوئے سوچتے کہ اللہ نے یہ دنیاوی جنت ایسی وادی میں بسا دی اور اس میں داخل ہونے کے لئیے اتنا کڑا امتحان ہے تو حقیقی جنت کس قدر شاندار ہوگی آور اسے حاصل کرنا اتنا دشوار ہر گز نہیں ہے بس اس کی نعمتوں کا شکر بجا لاؤ عبادت کرو اور حقوق العباد کا خیال رکھو ورنہ یہ اتنا کٹھن ہے تو پل صراط صراط مستقیم پر چلنے کے بغیر کیسے ممکن ہےاخوند صاحب اور ہمارے گائیڈ نے بتایا یہ ساری وادی حراموش ہےاونچے نیچے راستے جھرنے آبشاریں بہتی ندیاں پھلدار درخت الپائن کے درخت اسکے حسن کی علامات ہیں اور یہ مہم جو اور فطرت سے عقیدت رکھنے والوں کی جنت ہے یہاں دودھ اور شہد کی نہریں نہ سہی مگر صاف شفاف اور میٹھے پانی کے چشمے آبشاریں یہاں آنے والوں کی محنت کا ثمر ہیں آخوند صاحب اور گائیڈ نے باتوں اور نظاروں میں ایسا گم کر دیا کہ کٹھن راستے کی پیچیدگی محو ہو گئی مگر یکدم جو نظر گہرائی پر پڑی تو ہمیں اونچائی کا اندازہ ہوا ہماری ذرا سی خطا ہمیں اگلے جہان پہنچا سکتی تھی (ابھی جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں