کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے (سید صفدر رضا)

کیا کورونا کا عذاب کم تھا اس مدینہ کی ریاست کے مکینوں پر جو مصائب کی برکھا رت حکومت کی جانب سے جاری ہے سمجھ نہیں آتی کہ لاک ڈاؤن صرف اس لیئے نہیں کیا کہ 25 فیصد غریب لوگوں کا درد سونے نہیں دیتا تھا۔ حکومت کی ذمہ داری ہے ریاست کے مکینوں کو سہولیات فراہم کی جائیں اور اک فلاحی ریاست میں دو چیزیں بڑی اہم ہیں۔ اک ریاست اور دوسرے ریاست کے شہری۔ ابھی تو بجٹ کے تابڑ توڑ حملے جاری تھے۔ اور میرے کپتان کا سنہری قول گھبرانا نہیں کی بازگشت جاری تھی۔ کبھی ادویات کا سکینڈل منہ چڑھا رہا ہے تو کہیں آٹے چینی کے بحران میں گھری غریب مجبور و محکوم عوام کو حکومت کی جانب سے طفل تسلی دی جا رہی تھی کہ ان بحرانوں کا نوٹس لے لیا گیا ہے مگر قیمتیں اور مہنگائی اپنی جگہ پر براجمان ہیں۔نہ ہی بجٹ میں تنخواہیں اور پینشن بڑھائی گئی جسکا فایدہ پرائیویٹ اداروں ملز مالکان کو اس طرح دیا گیا وہ بھی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرکے مزے لوٹیں اور غریب کا خون چوسیں بجٹ کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ مہنگائی نہی بڑھے گی۔کیونکہ کپتان مسلسل چھکے کھانے کے بعد اب مہنگائی کی وکٹ لے لے گا۔مگر پھر کیا ہوا کہ نو بال ہو گئی۔ آٹا مافیا، چینی مافیا، اور اب پیٹرول مافیا کے آگے بھی گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ غریب عوام کا غم کہوں یا امیر طبقے کے مافیا کا رعب کہوں کہ حکومت کی ڈوبتی ناؤ کو بچانے کے لیئے جو ہاتھ پیر مارے جا رہے ہیں۔ وہ سب کے سامنے ہیں۔ کپتان اگر آپ کو یاد ہو کہ آپ کے اقوال زریں ہیں کہ ہم زیادہ لوگوں سے کم ٹیکس جمع کر کے پیسے اکٹھے کر کے دکھائیں گے۔ پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھاؤں گا۔جب ان چیزوں کی قیمت بڑھتی ہے تو مہنگائی آتی ہے عام آدمی اور غریب بیچارہ اور نیچے چلا جاتا ہے ہم غربت ختم کریں گے۔ مگر خاص آدمیوں یعنی پٹرول کمپنیوں کو 4 کروڑ کی خطیر رقم کے جرمانے کئے گئےاور صرف سات ارب کی معمولی رقم ان غریب کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے مالدار اور سکھی عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ آپ کہا کرتے تھے ڈیزل غریب کسان استعمال کرتا ہے اس کی قیمت کم ہونی چاہیئے۔ دنیا میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں دنیا بھر میں 70 فیصد کم ہورہی ہیں اور حکومت 35 فیصد کم کر کے پیسے کھارہی ہے دنیا میں پٹرول سستا ہوا ہے تو یہاں چالیس فیصد بجلی ڈیزل سے تیار ہوتی ہے۔ حکومت پیسہ اپنی جیب میں ڈال رہی ہے۔ اور عوام مہنگی بجلی کے بل کیوں دیں بلکہ جوان مردی سے سر عام آپ نے بجلی کے بل جلائے تھے۔ اب تو عوام کو کھمبے اکھاڑ دینے چاہیئں۔ کیونکہ آپ نے کہا تھا جب پٹرول مہنگا ہو تو مہنگائی کا طوفان آتا ہے اب وہ پچیس فیصد غریب عوام کہاں جائے ۔اپ نے دو فیصد کی خاطر وقت سے پہلے قیمتیں بڑھا دیں جو فیصلہ 30 جون کو اوگرا کی مشاورت سے ہونا تھا وہ آپ نے تنہا فرما دیا وہ مقررہ تاریخ سے چند دن پہلے، اپ تو اداروں کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا کرتے تھے یہ کیا ہوا جو پیٹرول کی قیمتوں کا تعین کرنے والا ادارہ ہے اسے نظر انداز کر دیا۔ اب آپ ہی بتائیں اس کا کس قدر فائدہ غریب عوام کو ہو گا بلکہ مدینہ کی ریاست میں ہمارے نبی اکرم (ص) خاتم النبیین نے کس مندر، گردوارے، چرچ، یا گرجا گھر کی بنیاد رکھی تھی جو آپ نے عوام کے پیسے اور جگہ اسلامی مملکت اور آپ کے بقول مدینہ کی ریاست کے دارالحکومت میں آپ کے دست مبارک سے مندر کی تعمیر کا آغاز ہوچکا ہے اسلامی سپہ سالار محمود غزنوی نے اس سر زمین پر اسلامی پرچم لہرانے کے لئے حملہ اور ہوا سترہ حملے کئے جب سومنات کا مندر فتح کیا تو ہندوؤں نے مال و جواہر کی پیشکش کی مگر محمود غزنوی اسلامی سپہ سالار نے کہا کہ میں بت فروش نہیں ہوں بت شکن ہوں۔ اور یوں بت شکن بن کے عالم اسلام کا ہیرو بن گیا اب رواداری کے علمبردار بیسویں صدی کے مندر کی تعمیر وہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ سجانے پر اسلامی دنیا آپ کو کون سے اعزاز سے نوازے گی تاریخ بہترین منصف ہے اور وہ کسی کو اس کی خطا پر معاف نہیں کرتی۔ خدا کے گھر لیئے آپ اس مملکت خدا داد پر شہید ہونے والے ماں بین بیٹوں کی قربانیوں کا خیال کریں ان کی روحوں کو بے چین کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا۔ عوام دشمن اقدامات سے گریز کیا جائے عوام کے معاشی جذبات سے کھیلنے کے علاؤہ خدارا مذہبی جذبات سے مت کھیلیں۔ کیونکہ مذہب ایسی کیفیت ہے کہ جس نے اس قوم کو بے شمار شہید اور غازی دیئے ہیں اگر مافیا آپ کے کنٹرول میں نہیں تو عوام نے ان سے نجات پانے کے لیئے آپ پر اعتبار کیا تھا مگر آپ نے مافیا کو بھرپور فائدہ پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا ادویات مافیا، آٹا، مافیا، ڈیم فنڈز، کرونا فنڈز، انڈے، مرغی، بکری کٹے کی بات تو پرانی ہوئی۔ لا ک ڈاؤن کو سمارٹ لاک ڈاؤن کا نام دیکر اب لاہور 70 فیصد سے زائد بند ہے دیہاڑی دار کدھر گئے۔ روزگار کدھر گئے۔ کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں