7

اے مادرِ ملّت کسی دشمن کی ضرورت نہیں تجھ کو (انشال راٶ)

مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کی برسی پر سوشل میڈیا پر من گھڑت قصے کہانیوں، فرضی و بےبنیاد باتوں کو ذہنی تخریب کاری کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور منافقت سے بھرپور جھوٹ بولتی و زہر اگلتی زبانیں و تحریریں حقیقت کو مسخ کرنے میں لگی ہیں، اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ میڈیا کو کسی بھی ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ حاصل ہے، آج کے جدید دور میں میڈیا کی رسائی نہ صرف تیز ہوگئی ہے بلکہ اس کے اثرات میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اگر حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنے والے چوتھے ستون پہ قابض ہوں تو دنیا کی کوئی بھی طاقت عوام کو گمراہی اور اقوام کو بربادی سے نہیں بچا سکتی، جس طرح کسی بھی فصیل چاہے وہ کتنی ہی لمبی چوڑی یا مضبوط ہو اس کی پختگی کا دارومدار اس کے فنِ تعمیر کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس میں استعمال ہونے والے خام مال اور اس کی بنیاد کی پختگی پر ہوتا ہے اسی طرح کسی بھی معاشرے یا ریاست کی پختگی کا دارومدار افراد کی پختگی و شعور پر ہوتا ہے

ریاست کی تباہی کے لیے فقط اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ اس کے عوام کو گمراہ کر دیا جائے یہی وجہ تھی کہ چین نے سب سے پہلے چوتھے ستون کو کالی بھیڑوں سے پاک کیا لیکن افسوس ہمارے ہاں تو معاملہ بہت آگے کا ہے، کائنات کی ساری اقدار پامال کرچکے سرے سے سچ اور دلیل کا رواج ہی ناپید ہوچکا اور اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے جواباً پروپیگنڈہ شروع کردیتے ہیں لیکن اس کی عملی زندگی ناپائیدار ہوتی ہے خواہ کتنا ہی پروپیگنڈہ کرلیا جائے اگر مضبوط دلیل آجائے تو سارے پروپیگنڈے ڈھیر ہوجاتے ہیں جیسا کہ میجر جنرل آصف غفور نے احسن حکمت عملی سے اس محاذ میں کامیابیاں سمیٹیں جسے بھارت ایسا ازلی دشمن بھی تسلیم کرنے پہ مجبور ہوا۔ اسے بدقسمتی کہیں، المیہ یا کچھ اور کہ اس وقت پاکستان کو بیرونی دشمنوں سے زیادہ ہمارے اپنے ہی نقصان پہنچارہے ہیں جنہوں نے عبداللہ بن ابئی ٹولے کی یاد تازہ کردی ہے خواہ کوئی بھی موقع ہو یا بات ان کا ہدف یا تو پاک فوج بحیثیت ادارہ ہوتی ہے یا پھر ملکی مفادات کو نقصان پہنچانا اور نظریہ پاکستان سے دشمنی تو آج تک میری سمجھ ہی میں نہیں آ سکیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کی مثال لے لیجئے کس طرح بےبنیاد و بھونڈا الزام لگاکر افواج پاکستان کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش ہے، کہا جارہا ہے کہ جنرل ایوب خان نے مادر ملت کو غدار قرار دیا جبکہ اس میں ایک فیصد بھی صداقت نہیں۔ ایوب خان کے طرز حکومت سے لاکھ اختلاف صحیح لیکن یہ بات سراسر تہمت ہے کہ ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو غدار و بھارتی ایجنٹ کہا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان نے ہمیشہ مادر ملّت کے لیے Venerable کا لفظ استعمال کیا،فخر اور وفاق کی علامت قرار دیا، اپنی روداد میں انہوں نے تسلیم کیا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے مقابل الیکشن لڑنا ان کی غلطی تھی، ایوب خان نے آف دی ریکارڈ میٹنگ میں بھی کبھی محترمہ فاطمہ جناح پر الزام نہیں لگایا جبکہ یہ حقیقت تھی کہ پشتونستان و فری بلوچستان تحریک چلانے والوں نے اور بنگلہ نیشنلسٹ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوے محترمہ فاطمہ جناح کے اسٹیج کا سہارا لینے کی کوشش کی جس پر صدر ایوب خان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اس بات کو بنیاد بناکر پروپیگنڈہ بریگیڈ نے یہ بات گھڑ لی ہے جس کی آڑ میں مذکورہ ٹولہ پشتونستان، فری بلوچستان اور بنگلہ نیشنلسٹوں کو پاک صاف بنانے کے لیے دلیل دیتے ہیں کہ وہ تو مادر ملت کے ساتھی تھے۔ اگر یہ پیمانہ کسی کے صاف، وفادار، محب وطن ہونے کا مان لیا جائے تو پھر حضور اقدسؐ کے ساتھیوں میں شامل ہوجانے والے عبداللہ بن ابئی اور حضرت علیؓ کے گروہ میں گھس جانے والے عبداللہ ابن سبا و پیروکاروں کو بھی صاف شفاف مان لیا جائے؟ اس کے علاوہ معروف ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا، ہوسکتا ہے ایسا ہوا ہو لیکن اس پر صدر ایوب کو مورد الزام ٹھہرانے کو اگر عقلی بنیاد پہ پرکھا جائے تو روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کے قتل یا وفات سے اور آپ کے جنازے میں ہونے والی بدامنی سے نقصان صرف صدر ایوب کو ہوا اور محترمہ فاطمہ جناح کی رخصتی کا فائدہ تین قوتوں کو ہوا جن میں اولاً پیپلزپارٹی کیونکہ محترمہ کے جیتے جی پیپلزپارٹی یا بھٹو صاحب کو قوم بطور لیڈر کبھی قبول نہ کرتی۔ ثانیاً بنگلہ نیشنلسٹوں کو ہوا جیسا کہ مادر ملت وفاق کی علامت تھیں اور آپ کے جیتے جی بنگالیوں کے دل میں پاکستان سے علیحدگی کے جذبات پیدا نہیں کیے جاسکتے تھے۔ ثلاثاً مغربی پاکستان میں موجود وڈیروں و قوم پرستوں کو جن کی راہ میں مسلم لیگ رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ پروپیگنڈہ مافیا بغض پاک فوج میں غلاظت بکھیرنے میں اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ انہوں نے لیاقت علی خان جیسی عظیم شخصیت تک کو نہ بخشا اور محترمہ فاطمہ جناح سے منسوب کرکے من گھڑت قصے لکھے جن میں یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ “لیاقت علی خان بابائے قوم کی عیادت پر نہیں بلکہ یہ دیکھنے آئے ہیں کہ اور کتنے دن جی سکیں گے” کیا وطن پرستوں کا ایسی سوچوں پر تُف اور ایسی سوچ کے حاملین پر وائے کہنے کو جی نہیں چاہتا؟ سوال یہ ہے کہ جس آدمی کے اخلاص و وابستگی پر قائد اعظم کو شک تھا اسی کو وزیر اعظم کیوں منتخب کیا؟ اگر یہ سوچا جائے کہ لیاقت علی خان کو دولت کا لالچ تھا تو پھر اس سوال کا جواب کون دے گا کہ انہوں نے اپنی جائیداد کے دعوے واپس کیوں لے لیے کیوں انہوں نے اپنی اربوں کی ملکیت و دولت چھوڑی؟ لیکن نفرین ہے پروپیگنڈہ بریگیڈ پہ ہزاروں لعان جن کے نزدیک قائداعظم ، لیاقت علی خان اور مادر ملّت سمیت تمام لوگ ہی ملک دشمن تھے۔ یہاں ملکی سلامتی کے ادارے اور نظریہ پاکستان کے مقابلے میں ہر اس شخص کے لیے ہمدردی ہے جس نے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہو یا ملکی بنیادوں کو کمزور کرنے پہ تُلا ہو۔ چین کو تو اپنے دور میں صرف چوتھے ستون میں موجود کالی بھیڑوں سے پریشانی تھی اس نے مسئلہ حل کر لیا ہمارے ہاں تو کسی کالی پیلی صحافت کے ہوتے ہوے کسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں