پاکستانی معاشرے میں پنپنے والی تعفن زدہ سوچ (لیاقت علی ہزارہ)

اگر انسانی خلقت کے تحقیقی پہلو کو مدنظر رکھکر سوچا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالی نے روئے زمین پر انسانوں کو اس لئے بھیجا تاکہ لوگ تجسس و تحقیق اور تجزیہ و تحلیل کو معیار زندگی بناتے ہوئے اس کائنات کی سربستہ رازوں کو جاننے کی سعی کریں۔ اسی لئے قرآن پاک میں جگہ جگہ اللہ تعالی نے انسان کو مخاطب کرکے کہا ہے “پس میں نے تمھیں روئے زمین پر اپنا وائسرائے (نمائندہ) بنا کر بھیجا ہے”۔ یہی بات سورہ نمل کی آیت 62 میں بھی کہی گئی ہے۔

قرآن پاک کا خلاصہ دو موضوعات کے گرد گھومتا ہیں۔ اولا‍‌‏‍‍‌ً بشریت دوما‍‌ً انسانیت۔ بشر کو انسان بننے کیلئے طویل جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ دنیا میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت شاید ساری زندگی بشر ہی رہتی ہے کیونکہ وہ اپنے آپکو بہتر بنانے کے لئے کوششیں نہیں کرتے۔ بہت کم لوگ ایسے ہونگے جو انسان بننے کی جستجو کرتے ہیں اور اپنے آپ میں انسانی خصلتوں کی نشوونماء کے لئے مشق کرتے نظر آتے ہیں۔ میرے نزدیک بشر انہیں کہا جاتا ہے جو صحیح اور غلط کے فرق کو خلط ملط کرتے ہیں تاکہ انکے ذاتی مفادات کی تحفظ اور آبیاری ہو جبکہ اسکے برعکس انسان ہمیشہ موضوع کی پرک عقل اور برہان کی کسوٹی پر کرتے ہیں اور فیصلہ سازی کرتے وقت اپنے ذاتی مفادات کو ایکطرف رکھکر سوچتے ہیں۔ بشریت اور انسانیت کا موضوع طویل ہے جس پر کسی مناسب موقع پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔

میری اس تحریر کا مقصد پاکستانی معاشرے میں پیوست اس عمومی سوچ کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لینا ہے جو تکثیریت پسندی سے کوسوں دور نکل کر مذہبی انتہاء پسندی، عدم برداشت اور عدم رواداری کو فروغ دے رہی ہے جسکا براہ راست اثر معاشرے میں زندگی گزارنے والی اقلیتی طبقوں پر پڑ رہی ہیں۔

پچھلے کچھ ہفتوں میں دو ایسے واقعات ہوئے جن سے پاکستانی نوجوانوں کے انتہاء پسندانہ انداز فکر کا پتہ چلتا ہے جو کسی طرح بھی پاکستان کے لئے سود مند نہیں۔ پہلا واقعہ اسلام آباد میں اس کوشش کو سبوتاز کرنے کا ہے جسمیں حکومت نے ہندووں کے لئے مندر تعمیر کرنے کی غرض سے جگہ اور فنڈز کی منظوری دے دی تھی مگر جاہل ملاوں اور بڑی سیاسی جماعتوں نے اس معاملہ کو مذہبی رنگ دے کر متنازعہ بنایا۔ انکے علاوہ، سول سوسائٹی اور پڑھی لکھی وکلاء نے بھی اسے ہر طرح سے ناکام بنانے کی بھرپور کوششیں کیں جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے حیلے بہانے سے اس مندر کی تعمیر روک دی۔

دوسرا معاملہ ہیگیئہ صوفیہ جیسے نادر عمارت کا ہے جسے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔ ہیگیئہ صوفیہ 537 قبل از مسیح رومی سلطنت نے بطور گرجا گھر تعمیر کی تھی جو ترکی کے خوبصورت شہر استنبول میں واقع ہے۔ اب ترکی نے اس شاہکار عمارت کو بطور مسجد استعمال کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ دونوں اقدامات اسلامی تعلیمات سے روگردانی ہیں کیونکہ اسلام نے ہمیشہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور انکی عبادت گاہوں کے احترام کی بات کی ہے۔
اس سلسلے کی عمدہ مثال میثاق مدینہ کی شکل میں موجود ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ تھا اور جسکی اہم نکات میں غیر مسلموں کو مدینہ میں مکمل مذہبی آذادی دی گئی تھی جہاں وہ بلا خوف و خطر اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کر سکتے تھے۔ میثاق مدینہ سے یہ چیز واضح ہو جاتی ہے کہ رسول اکرم (ص) نے اپنی زندگی میں غیر مسلموں کو عبادات کی بجا آوری کی آزادی کو یقینی بنایا جو تمام مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے مگر افسوس اس بات کی ہے کہ اکیسویں صدی کے مسلمان ان اسلامی تمام تعلیمات کے خلاف اقدامات کرتے نظر آتے ہیں جن سے بین المذاہب تناو، نفرت اور عدم برداشت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

قرآنی تعلیمات مسلم ملکوں میں آباد غیر مسلموں کے لئے “ذِمی” کا عربی لفظ استعمال کرتی ہے۔ “ذِمی” سے ذمہ اخذ کیا گیا ہے جو اردو زبان میں مستعمل ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ریاست غیر مسلموں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہر شہری ٹیکس ادا کرتا ہے، وہاں غیر مسلم بھی ٹیکس ادائيگی میں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔ اسطرح “ذِمی” کی ایک اور شرط “جزیہ یا ٹیکس” کی شکل میں پوری ہو جاتی ہے۔ اسی “جزیہ” ادا کرنے کے عیوض ریاست پابند ہوتی ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اگر “ذِمی” کو اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے تناظر میں دیکھا جائے تو کیا ہندو ریاست کو ٹیکس ادا نہیں کرتے؟ اگر ہندو بھی دوسرے پاکستانی شہریوں کی طرح ٹیکس ادا کرتے ہیں تو کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں کہ انہیں مندہ تعمیر کرکے دے اور اسکی حفاظت کو بھی یقینی بنائے؟

اسلام آباد میں اقلیتی کمیونٹی کے لئے مندر کی تعمیر روکنا رسول اکرم (ص) کی سیرت طیبہ، میثاق مدینہ اور اسلامی تعلیمات سے روگردانی بھی ہیں جن میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کو عبادات میں مکمل آذادی ہو گی۔

دوسری مثال ترکی میں حالیہ دنوں میں ہونے والے غیر اسلامی اقدامات کے بارے میں ہے جسمیں ہیگيئہ صوفیہ جیسے عالمی ورثہ کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ کیا اسلام تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کے احترام اور تحفظ کی ضمانت نہیں دیتا؟ اسلام امن و آشتی اور محبت و بھائی چارگی کا مذہب ہے۔ اسلام دھونس، دھمکی، جبراور زبردستی کی ممانعت کرتا ہے۔
آيئے ہیگيئہ صوفیہ کی زبردستی تبدیلی کو سرور کونین (ص) کی حیات طیبہ کی روشنی میں دیکھے اور سمجھے کہ نام نہاد مسلمان کسطرح سرکار دو جہاں (ص) کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرکے توہین رسالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

رسول اکرم (ص) کی حیات طیبہ میں جب اسلام مدینہ سے نکل کر دور دور تک پھیلنے لگا تو پیغمبر اسلام (ص) نے مدینہ سے باہر آباد مخلتف قبیلوں اور غیر مسلم مذہبی طبقوں کو 631 عیسوی میں خطوط لکھے جنمیں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی۔ اسی طرح کا ایک خط، رسول اکرم (ص) نے سفارتی وفد کے طور پر خالد ابن الولید اور حضرت علی ابن ابی طالب (‏ع) کو دیکر نجران روانہ کیا تاکہ وہ وہاں کے نصرانیوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دے۔ نجران مدینہ سے 773 میل جنوب کی سمت یمن کے سرحد کے پاس واقع ہے۔ اس زمانے میں نصرانی نجران میں اہم اور معتبر مذہبی نظام کے مالک تھے۔ اس خط کے نتیجے میں کچھ نصرانیوں نے دعوت کو قبول کرتے ہوئے مسلمان ہو گئے۔ جبکہ اکثریت نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا۔ پہلی بظاہر غیر موثر کوشش کے بعد، رسول اکرم (ص) نے ایک اپنے ایک اور سفارتی نمائندے، مغیرہ ابن شباء کو ایک اور خط کے ساتھ نجران روانہ کیا تاکہ نصرانیوں کو دوبارہ دعوت اسلام دی جا سکے۔

دوسری دعوت کی وصولی کے بعد نجران کے نصرانیوں نے 60 افراد پر مشتمل ایک سفارتی وفد مدینہ روانہ کر دیا۔ اس وفد میں 45 جید نصرانی علماء دین اور 15 لوگ بطور معاونین شامل تھے۔ جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو وہاں مسلمانوں اور نصرانیوں کے مابین مذہبی بحث ہوئی جسمیں مہمان وفد نے پیغمبر اسلام (ص) کو عیسائیت قبول کرنے کی دعوت دی۔ رسول اکرم (ص) نے اصرار کیا کہ دین اسلام سچا دین ہے لہذا انکے مہمان اس دین کو قبول کر لے۔ طرفین ہم آہنگی نا ہونے اور دینی موضوعات پر اختلافات کی وجہ سے ہاہمی اتفاق پر نہیں پہنچ پائے مگر رسول اکرم (ص) نے نصرانیوں کو مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دے دی اور پیغمبر اسلام (ص) نے مسلمانوں کو مہمانوں کے لئے خیمے لگانے کا حکم دیا۔ اس طرح، مہمان وفد نے رسول اکرم (ص) کے گھر کے قریب قیام کیا۔
روانگی کے وقت، نصرانی وفد نے رسول اکرم (ص) کو کہا: “اے ابو القاسم، ہم آپکو آّپکے حال پر چھوڑتے ہیں اور آپ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے مگر ہمارے ساتھ ایسا آدمی بھیج دے جو ہماری جائیدادوں سے متعلق فیصلے کر سکے کیونکہ ہم آپکو قبول کرتے ہیں” اسطرح نصرانی وفد مدینہ سے روانہ ہوا مگر انکے پاس پیغمبر اسلام (ص) کا تحریری معاہدہ موجود تھا جسمیں انکی زندگی، مال اور مذہبی آذادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس معاہدہ کو میثاق نجران کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ہیگيئہ صوفیہ کو مسجد بنائے جانے سے نا ہی اسلام کی فتح ہوئی ہے اور نا ہی مسلمانوں کی بلکہ ترکی کی یہ حرکت مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان عدم اعتماد، تعصب اور نفرت کو ہوا دے گی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس طرح کے حساس معاملہ پر کاروائی کرتے وقت میثاق مدینہ اور معاہدہ نجران کا عملی مظاہرہ کیا جاتا تاکہ رسول اکرم (ص) کی سیرت کے درخشاں پہلو غیر مسلموں پر واضح ہو جاتے۔ بین المذاہب میں ہم آہنگی بڑھانے اور باہمی بھائی چارگی کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا تحفظ ہو اور انہیں آذادانہ مذہبی رسومات کی ادائيگی کی ضمانت دی جائے۔

اگر مغرب میں مسلمانوں کی مسجدوں کے خلاف ایک منظم مہم شروع ہو جاتی ہے اور وہاں کی عدالتیں یہ حکم صادر کرتی ہے کہ تمام مسجدوں کو گرجا گھروں میں تبدیل کیا جائے تو کیا مسلمان اس چیز کے متحمل ہو سکتے ہیں کہ جن عمارتوں میں مسجدیں بنائی گئی ہیں، انہیں گرجا گھروں میں تبدیل کر دیا جائے۔

اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کو سبوتاز کرنا اور ہیگيئہ صوفیہ کو مسجد بنانے کے واقعات کی تعریف کرنے سے پاکستانی معاشرے میں پائی جانی والی مذہبی انتہاء پسندی، عدم برداشت، عدم رواداری اور مطلق العنانیت کی تشہیر اور ترغیب ہوتی ہیں جبکہ اسلام ہمیشہ تکثیرت پسندی اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا درس دیتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے جہاں دھونس، دھمکی اور زبردستی کرنے کو عین اسلامی مانا جاتا ہے جس سے معاشرہ تعفن زدہ ہو گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں