کیا کورونا کسی نئے نظام کی تشکیل چاہتا ہے؟ (شیخ خالد زاہد)

دنیا کے حالات دیکھتے ہی دیکھتے بد تر ہوتے جا رہے ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ معیشت کا مسلسل غیر مستحکم ہونا ہے، کاوربار ی دنیا بری طرح سے متاثر ہوچکی ہے۔ بظاہر حالات کے قابو میں آنے کے کوئی آثار دیکھائی نہیں دے رہے۔ ایک طرف نیوزی لینڈ نے کورونا پر قابو پالینے کا حتمی اعلان کردیا اور اس خوشخبری کی وجہ نیوزی لینڈ میں نئے کورونا کیس کا سامنے نا آنا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ خبر کسی خوشگوار ہوا کے جھونکے سے کم نہیں لیکن اس بات کو بھی مد نظر رکھیں کہ نیوزی لینڈ کی کل آبادی لگ بھگ اڑتالیس لاکھ ہے جوکہ پاکستان کے شہر لاہور کی کل آبادی سے بھی کم ہے، یاد دہانی کیلئے دوبارہ لکھا جارہا ہے کہ صرف لاہور شہر کی آبادی نیوزی لینڈ (پورے ملک) کی کل آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔ تقریباً دو ہفتے (پندرہ دن) مکمل بندش (لاک ڈاءون) کورونا سے نمٹنے کیلئے سب سے اہم قدم ہے جسے اٹھانے کیلئے انتہائی مستحکم معیشت کیساتھ آپکے نظام میں پائیداری اور عوام کا مکمل اعتماد ہونا بہت ضروری ہے اور یہ اسلئے ضروری ہے کہ عوام کو یقین ہو کہ ان تک لاک ڈاءون کے دوران غذائی اجناس بغیر کسی بد عنوانی کے پہنچتا رہے گا۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ بندش کا مطلب مکمل بندش ہے کسی قسم کی نرمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب جن ممالک کی آبادی مختصر ہے اور انکی معیشت کسی حد تک مستحکم تھی وہ ممالک کوروناکی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات سے بروقت اقدامات کی بدولت قدرے سنبھل گئے۔ دوسری طرف دنیا کے وہ ممالک جہاں معیشت انتہائی مستحکم تھی لیکن آبادی کا تنا سب زیادہ ہونے کی وجہ سے انتہائی اقدامات نا اٹھا سکنے کی بدولت بے تحاشہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مالی نقصان تو اپنی جگہ ہے لیکن انسانی جانوں کے نقصانات میں ابھی تک کمی نہیں آپا رہی ہے۔

آئیں امریکہ میں ہونے والے نسلی فسادات پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں جہاں گوروں کالوں کا ایک دائمی تنازع ایک بار پھر اپنی بھرپور جوبن پر پہنچا ہوا ہے جس کے پیچھے ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ نامی شخص کا پولیس کی حراست میں بیہیمانہ قتل بنا۔ اس قتل کا سبب کچھ بھی ہو لیکن جو آگ امریکہ میں اس قتل سے لگی ہے اتنی آسانی سے بجھے گی نہیں بلکہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتی چلی جائی گی اور بہت قوی امکان ہے کہ کسی نئے نظرئیے کو بھی جنم دے دے۔ آمریکہ ابھی تک کورونا کہ کاری واروں کی بھرپور زد میں ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جوکہ عملی طور پر ابتک کورونا کو اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں تھے کل انہوں نے یقینا انتہائی دباءو میں آکر اپنے چہرے پر ماسک سے ڈھنپا جب وہ ایک ہسپتال کا دورہ کر رہے تھے۔ ہر روز امریکہ کی کسی نا کسی ریاست میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ دیکھائی دے رہا ہے اور اسی طرح سے اموات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ محسوس یہ کیا جاتا رہا ہے کہ امریکی عوام اپنے صدر کی طرح یہ سمجھ رہی تھی کہ کورونا وائرس کو بھی بارود سے ختم کردینگے یا انکی فوج اس وائرس پر با آسانی قابو پالے گی لیکن حسب معمول انکی فوج کی طرف انکا صحت کا نظام بھی اس وائرس پر قابو پانے میں ابتک قطعی طور پر ناکام رہا ہے۔

پاکستان ایک معجزاتی مملکت ہے اور گزشتہ ستر (70) سالوں سے اس ملک کو کھانے والے کھاتے جا رہے ہیں لیکن اللہ کے فضل و کرم سے یہ ملک جوں کا توں چلے جا رہاہے، ایسے اور بہت سارے دلائل موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے کورونا کے حوالے سے کئے گئے اقدامات بھی ایسے ہی معجزوں سے وابسطہ رہے۔ یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ لفظ معجزے کیوں استعمال کیا گیا ہے، تو اسکی دلیل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی باضابطہ تھنک ٹینک (سوچ بچار کرنے والا ادارہ) نہیں ہیں اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ملک میں قابل اور اہل لوگ نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے ہ میں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب، ڈاکٹر عطاء الرحمان صاحب، ڈاکٹر عشرت حسین، ڈاکٹر شمشاد اختر اور دیگر قابل قدر شخصیات سے نوازا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے ان جہاں دیدہ شخصیات سے جز وقتی کام لئے ہیں اور پھر انہیں ایک طرف کردیا ہے۔ بد قسمتی سے اس ملک کے حکمرانوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ صرف اپنے ناموں کی تختیاں لگوانے کے شوقین رہے، تختی کہاں لگائی جا رہی ہے اور کیوں لگائی جا رہی ہے اس سے ملک اور قوم کیا فائدہ ہوگا اس سے سروکار نہیں رکھا گیا۔ پاکستان میں سیاست کو وراثتی جاگیر سمجھا جاتا رہا ہے، نسل در نسل سیاست میں رہنے والے خاندان یہ بھول ہی گئے ہیں کہ یہ اپنے گھر کا باورچی خانہ کسی اور کے خرچے پر چلا رہے ہیں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں شامل لوگوں کی اکثریت ان ہی شکلوں پر قائم ہے جو دیگر سیاسی جماعتوں کو داغ رفاقت دے کر یہاں آئے ہیں، ان سب کا کہنا یہ ہے کہ اب وہ ملک و قوم کیلئے اور سب سے بڑھ کر پاکستان میں انصاف کی بحالی کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں اور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب نے کام نا کرنے والوں کو یا جن کی وزارتوں سے کوئی تخلیقی یا عوامی فلاح و بہبود کا کام نہیں کیا جا رہا ایسے وزراء کو تبدیل کیا جا رہاہے اور اگر کوئی وزیر کسی قسم کی بد عنوانی میں ملوث پایا جا رہا ہے تو اسکے خلاف انکوائری بھی کی جا رہی ہے، ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ وزیر ان اقدامات پر کسی قسم کا منفی رد عمل بھی دیتے نہیں دیکھائی دے رہے۔ موجودہ حکومت کے وجود میں آنے کی سب سے بڑی وجہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کا نعرہ ہے اور حکومت کسی حد تک اپنے اس نعرے کی پاسداری کرتی دیکھائی دے رہی ہے تقریباً سیاستدان عدالتوں کے چکر لگاتے دیکھائی دے رہے ہیں گوکہ اپنی بیگناہی اور حکومت پر تہمتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن پیشیوں کے سلسلے جاری ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا عدالتی نظام بھی انصاف کی فراہمی میں اپنی قابل قدر مثالیں قائم نہیں کرسکا ہے اور بہت سارے معاملات میں جرائم پیشہ افراد مختلف وجوہات کی بناء پر رہائی پاتے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت خصوصی طور پر وزیر اعظم عمران خان صاحب کی ذاتی دلچسپی کی بدولت آج پاکستانی قوم ارطغرل غازی ڈرامہ اردو میں دیکھ رہے ہیں، جہاں یہ ڈرامہ ہمارے قومی نشریاتی چینل یعنی پاکستان ٹیلی وژن پر دیکھایا جا رہا ہے وہیں لوگوں کی دلچسپی انہیں یوٹیوب پر لے گئی اور دیکھنے والے کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں۔ یقینا یہ ایک مثبت اقدام ہے کم ازکم ہماری نسلوں کو یہ تو پتہ چلے کہ ہماری تاریخ ہے کیا اورکس طرح سے سلطنت عثمانیہ تشکیل پائی کس طرح سے خدا کی مدد اپنے کاموں میں لگے لوگوں کیلئے آتی رہی ہے اور کس طرح اللہ تعالی پر بھروسہ کرنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ مذکورہ ڈرامے نے دراصل آگہی کے سمندر میں دھکیل دیا ہے اب جو لوگ اس ڈرامے کی حقیقت کو پہنچ جائینگے یقینا وہ نا صرف پاکستان سے خیرخواہ ہوجائینگے بلکہ بہت ممکن ہے امت کی تشکیل کیلئے بھی اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ بہت حد تک یقین ہے کہ کورونا کی بدولت بہت ساری تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں جن میں سب سے اول تو دنیا میں بگڑا ہوا طاقت کا توازن بہتر ہوتا چلا جائے گا جس کی بدولت بہت حد تک ممکن ہے کہ سپر پاور کا کھیل ہی ختم ہوجائے، دوئم یہ کہ معاشیات کا نظام بھی جو چند ملکوں کی قید میں ہے ان سے آزاد ہوکر وسعت پاجائے اور گروپ آٹھ اور گروپ بیس کی تعداد میں ہر ممکن اضافہ کرنے کی ضرورت پیش آجائے، سوئم یہ کہ انصاف کی صحیح معنوں میں بالادستی قائم ہوجائے۔ جہاں جہاں دراندازی کی گئی ہے اسے فل فور واپس کیا جائے اور ان زبوں حال ممالک کی تشکیل نو کو یقینی بنایا جائے۔ کالے گورے کی صدیوں پر مہیت جنگ کو بھی ختم کیا جائے اور یہ جنگ ہر ملک میں برابری کی نمائندگی کی مر ہون منت قائم کی جاسکتی ہے۔ ترکی نے ایک بہت بڑا عملی کارنامہ پیش کیا ہے کہ ہیگیا صوفیاء کو واپس چوراسی سال بعدمسجد کا رتبہ دے دیا گیا ہے جو کہ ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ قوی امکان ہے کہ جب دنیا سے کورونا جائے (جسکا ابھی کوئی علم نہیں) تو دنیا کو یکسر بدل کر جائے اور عدل اور انصاف کا بول بالا کر کے جائے، باقی قارئین خوب سمجھ سکتے ہیں کہ عدل و انصاف کا بول بالا کیسے قائم ہوسکتا ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں