احساس…! (سید ابرار ہمدانی)

خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے

عربی میں إحْسَاسُ
[عام] (اسم) شعور، جذبہ، قابلیت، تاثر
ج: احساسات و احاسیس مَحْسُوْسُ [عام] (اسم) قابل ادراک یا قابل احساس چیز ج: محسوسات حواس خمسہ میں سے کسی ایک کے ذریعہ محسوس کی جانے والی اشیا ضد بالخصوص طب و حیاتیات میں حس سے مراد کسی جاندار کو ہونے والی اس حسی ادراک (حسی ادراک) کی ہوتی ہے کہ جو کسی حسی عضو کے کسی منبہ سے تحریک پانے کے بعد دماغ میں کوئی احساس اجاگر کرتی ہے۔ یہ حس آنکھ سے داخل ہونے والی روشنی بھی ہوسکتی ہے اور یا پھر جلد پر لگنے والی کوئی شے (جیسے کوئی گرم چیز) بھی ہوسکتی ہے۔ حس کی جمع احاسیس کی جاتی ہے۔

طبی لحاظ سے اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ حس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ کسی حاصلہ کو مُثار کرنے کہ بعد کوئی کسی احساس (لمس، بصارت، ذائقہ وغیرہ) ایک حسی عصب کے ذریعہ سے سفر کرتا ہوا دماغ کے محس تک پہنچے اور اس طرح سے کوئی پیغام ایک حاصلہ سے لیکر دماغ میں وارد ہونے والے عصب کو عصب وارد کہا جاتا ہے۔
احساس ایک محرک کی ابتدائی خصوصیات کا پتہ لگانا ہے۔ احساس اور تاثر کو عام طور پر ایک ساتھ میں سوچا ہے۔
الفاظ میں تو حسی ادراک کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ دراصل کسی حس کو سمجھنے کا عمل ہوتا ہے جو دماغ میں انجام دیا جاتا ہے یا یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ آگاہی دراصل کسی حس سے پیدا ہونے والا عقلی تاثر ہوتا ہے۔ اور طب و حیاتیات کے مطابق آگاہی دراصل وہ ادراک یا شعور ہے جو دماغ کے محس میں کسی حس کے وارد ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔
حسی ادراک کی ترکیب اپنے عام استعمالات کے علاوہ نفسیات سے بہت گہرا تعلق بھی رکھتی ہے اور علم ادراک میں اس سے مراد ادراک سے بعد کا درجہ لی جاتی ہے۔ یعنی سب سے پہلے کوئی منبہ کسی حسی عضو مثلا آنکھ یا جلد وغیرہ پر موجود حاصلات پر کوئی تحریک پیدا کرتا ہے جو جانداروں کی صورت میں برقی نوعیت کی ہوتی ہے اور ایک پیغام کی صورت میں دماغ تک جاتی ہے اس عمل کو حصول کہا جاتا ہے پھر جب یہ پیغام دماغ کے محس میں پہنچ جاتا ہے تو وہاں اس کا دوسرے آنے والے پیغامات اپہلھ سے موجود یاداشت یا معلومات کی مدد سے تجزیہ کیا جاتا ہے جس سے ایک حس کے ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے (یہی دراصل ادراک ہے) اور پھر اس حس کا انتخاب کیا جاتا ہے جس سے اس کی ایک انفرادی اور عقلی شکل پیدا ہوتی ہے پھر اس کے بعد اس کو دماغ میں ایک مقام ادا کیا جاتا ہے جہاں سے یہ حس دیگر حسوں اور گذشتہ معلومات یا محفوظ یاداشتوں کے ساتھ ملتی ہے اور اس میں گہرائی اور وسیع معنی (بعض اوقات آنے والی اصل اور حقیقی حس سے زیادہ) نمودار ہوتے ہیں اور دراصل یہی مرحلہ حسی ادراک کہلاتا ہے۔ شاعری میں احساس کو مختلف سطحوں پربرتا گیا ہے۔ تخلیقی زبان کی بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ اس میں لفظ اپنے لغوی معنی سے کہیں آگے نکل جاتا ہے اور معنی و مفہوم کی ایک ایسی دنیا آباد کرتا ہے جسے صرف حواس کی سطح پردریافت کیا جاسکتا ہے۔ یہ احساس خود تخلیق کاربھی ہے اوراس کے قاری کا بھی۔ ان شعروں میں دیکھئے کہ ایک شاعر اپنی حسی قوت کی بنیاد پرزندگی کے کن نامعلوم گوشوں اور کفیتوں کو زبان دیتا ہے۔ احساس کی شدت کسی بڑے فن پارے کی تخلیق میں کیا کردار ادا کرتی ہے اس کا اندازہ ہمارے اس انتخاب سے ہوتا ہے ۔ا
اپنی حالت کا خود احساس نہیں ہے مجھ کو ں نے اوروں سے سنا ہے کہ پریشان ہوں میں

تری چاہت کا مجھ کو گر کوئی احساس نہ ہوتا
تو پھر اے ہمسفر تو آج میرے پاس نہ ہوتا

خوشی کا احساس کیسے ہو سکتا ہے اِس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم

خوشی کے ساتھ کتنے روابط قائم رکھے ہوئے ہیں۔ خوشی کے ساتھ روابط کا مطلب یہ ہے کہ ہم خوشیاں بکھیرنے کے لیے کتنی سعی کرتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ہمیں وہی چیز میسر آسکتی ہے جو چیز ہم دوسروں کو دیتے رہے ہیں۔ ھم کسی کو بغیر مسکراہٹ کے دیکھیں تو اُسے اپنی مسکراہٹ دے دیں۔ اب جناب خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ کتنا خوش قسمت ہوگا جو دوسروں میں مسکراہٹ تقسیم کرتا ہو۔ کہنے کو تو یہ بہت آسان سی بات لگتی ہے اور ہے بھی آسان اُس کے لیے جو اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کرتا ہے۔ اِسی لیے کہا گیا کہ جو اپنے ہم عصر دوستوں کو شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اپنے خالق کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتا۔ اشکر کرو۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے اُس دوست پہ کہ وہ بیس سال کی عمر میں بھی کتنا میچیور تھا اور واقعی وہ شخص مطمن زندگی بسر کر رہا ہے ۔اِس لیے دوستو: اگر ہم زندگی میں اپنا وطیرہ بنا لیں کہ ہم ہر وقت اللہ پاک کا شکر ادا کریں اور اپنے آس پاس کے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کریں۔ اللہ پاک بے نیاز ہے اور وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت۔ اللہ پاک کا جب قرب حاصل ہوجائے تو پھر اللہ کی دوستی میں تو پھر اللہ عزت سے نواز دیتا ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں