ترکی کا آیا صوفیہ اور بیت المقدس (ساجد خان)

ترکی کے صدر طیب اردگان نے حال ہی میں مشہور زمانہ عمارت آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس سے پوری دنیا میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ یورپی یونین نے بھرپور مذمت کی ہے جبکہ عیسائی مذہب کے پاپ نے بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان میں بھی اس موضوع پر شدید اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔ ایک طبقہ ان اقدامات پر طیب اردگان کی مداح سرائی کرتا نظر آ رہا ہے جبکہ دوسرا طبقہ اس معاملے پر تنقید کرتا نظر آ رہا ہے۔ ایک حد تک میں بھی اس طبقے میں شامل ہوں جسے اس فیصلے پر اعتراض ہے۔

آیا صوفیہ کی اگر ہم تاریخ پر غور کریں تو یہ عمارت اسلام آنے سے قبل بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے بھی پہلے تعمیر ہوئی۔ جب خلافت عثمانیہ کے سلطان محمود نے اس علاقے کو فتح کیا تو اس تاریخی عمارت کو چرچ سے مسجد میں بدل دیا گیا لیکن 1935 میں جب ترکی میں سیکولر قیادت اقتدار میں آئی تو اس عمارت کو مسجد سے میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا اور ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں سیاح اس عمارت کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے طیب اردگان اپنی تقاریر میں اس عمارت کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کا ذکر کرتا رہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ طیب اردگان 2003 سے مسلسل اقتدار میں بیٹھا نظر آتا ہے تو پھر اس نے اپنے وعدے پر عمل کرنے میں اتنا وقت کیوں لگایا۔

میرے خیال سے یہ فیصلہ مذہبی سے زیادہ سیاسی ہے۔ جو افراد ترکی کے سیاسی حالات سے آگاہ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ترکی میں طیب اردگان کی مقبولیت وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی نظر آ رہی تھی۔ گزشتہ انتخابات میں طیب اردگان کو الیکشن میں چند دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر حصہ لینا پڑا لیکن اس کے باوجود نہایت کم مارجن سے فتح نصیب ہوئی جبکہ بلدیاتی انتخابات میں طیب اردگان کی جماعت کو انتہائی بری شکست کا سامنا کرنا پڑا، جس میں استنبول اور انقرہ جیسے بڑے شہروں کے علاوہ بہت سے اہم شہروں کی میئر شپ سے ہاتھ دھونا پڑا۔

یہ شکست جہاں طیب اردگان کیلئے خطرہ کی گھنٹی تھی، وہیں اپوزیشن کیلئے حوصلہ افزاء تھی کیونکہ گزشتہ پچیس سال سے استنبول کی میئر شپ پر طیب اردگان کی جماعت کا قبضہ تھا اور طیب اردگان نے اپنی سیاست کا آغاز بھی اسی شہر کی میئر شپ سے کیا تھا۔

اب ترکی میں 2023 میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہونے جا رہے ہیں جبکہ ترکی کی معیشت بھی ڈانواں ڈول ہے اور کرنسی بھی تاریخ کی نچلی سطح پر ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری بھی کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ ترکی کی بہت سے ممالک میں غیر قانونی فوجی مداخلت پر بھی تنقید بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے ترک عوام میں کافی بے چینی نظر آ رہی ہے۔ اس حالت میں طیب اردگان کو عوام کو مصروف رکھنے کے لئے ایک نئے موضوع کی ضرورت تھی اور اس نے اس کا بہترین استعمال کیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ طیب اردگان ایک بہترین سیاست دان ہے جو اپنے فائدے کے لئے موقع کی مناسبت سے چالیں چلتا رہتا ہے اور اب تک اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہوتا آ رہا ہے۔

آپ ذرا توجہ کریں کہ ترکی کے پڑوس میں گزشتہ ایک دہائی سے بدترین خانہ جنگی ہو رہی ہے، جس کو بھڑکانے میں ترکی کا اہم کردار ہے لیکن اس کے باوجود ترکی میں بہت کم دہشت گردی کے واقعات ہوئے لیکن چند سال پہلے جب داعش نے حملے کئے، اتفاق سے وہ الیکشن کا موسم تھا اور ان حملوں کے بعد اچانک سے ہی طیب اردگان کی مقبولیت میں اضافہ ہو گیا کیونکہ اردگان نے عوام کو باور کرایا کہ صرف وہی ایک ہے جو ملک کو دہشت گردی سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ یہ بات ثابت کرنے میں مشکل ہے کہ ان حملوں کی وجہ طیب اردگان کو سیاسی طور پر سہارا دینا تھا مگر حالات و واقعات کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس کا اپوزیشن کو نقصان ہوا جبکہ طیب اردگان کو فائدہ پہنچا۔

اسی طرح آیا صوفیہ کا معاملہ بھی سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے کیا گیا اور اب جو بھی ناکامی ہو گی،اسے صوفیہ مسجد کے ساتھ نتھی کر دیا جائے گا کہ اسلام کے دشمن ہمارے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور اگلے تین سال تک اس کارنامے کو عوام کے ذہنوں میں ڈالا جائے گا کہ گویا آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے سے مسلم امہ کے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔
اس واقعہ کو پوری دنیا خصوصاً ترکی میں اسلام کی ایک عظیم فتح کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے حالانکہ اس عمل سے مسلم امہ کے لئے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور ویسے بھی ایک عمارت جو پہلے ہی آپ کے قبضے میں تھی، اسے آپ مسجد میں تبدیل کریں یا منہدم کر دیں، اس کیسی فتح یا شکست ثابت ہو سکتی ہے۔

آیا صوفیہ عیسائی مذہب کے لئے اتنا ہی مقدس تھا جیسے مسلم امہ کے لئے قبلہ اول بیت المقدس۔

یورپ میں موجود مضبوط اسلام مخالف سیاسی جماعتیں اس کا خوب فائدہ اٹھا کر نفرت پھیلائیں گے جبکہ اس فیصلے سے بہت سے معاملات میں مسلم امہ کو سخت نقصان ہو گا۔

سب سے پہلا نقصان تو ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہو گا جہاں کئی سالوں سے بابری مسجد پر تنازعہ چلا آ رہا ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں کے پاس اپنا فیصلہ منوانے کی طاقت تو تھی مگر مضبوط دلائل نہیں تھے۔

اب وہ یہ اعتراض کرنے کے قابل ہو جائیں گے کہ جب ترکی کے مسلمان ایک چرچ کو مسجد میں تبدیل کر سکتے ہیں تو ہم ایک مسجد کو مندر میں تبدیل کیوں نہیں کر سکتے اور اب ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی اگست میں بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کا سنگ بنیاد رکھنے جا رہا ہے، ظاہر ہے کہ یہ موقع طیب اردگان نے ہی اسے دیا ہے۔

اب آیا صوفیہ پر خوشیاں منانے والے یا خاموشی اختیار کرنے والے کس حیثیت سے ہندوستان کے اس اقدام کو غلط کہیں گے۔
اس سے بھی اہم مسئلہ قبلہ اول بیت المقدس ہے۔

اسرائیل کے ساتھ ہمارا اہم اختلاف یہی ہے کہ اس نے ہمارے قبلہ اول پر قبضہ کر کے اسے یہودی طرز پر تبدیل کر دیا ہے۔ اب طیب اردگان نے بھی اسرائیل کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ بیت المقدس پر اپنے مکمل قبضے کا دعویٰ کر سکے۔ طیب اردگان نے تقریر میں جذباتی افراد کو بیوقوف بنانے کے لئے یہ تو کہہ دیا ہے کہ آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے سے بیت المقدس کی آزادی کی راہ ہموار ہوئی ہے لیکن راہ ہموار کیسے ہوئی ہے، یہ نا ہی طیب اردگان نے بتایا اور نا ہی اسے ہیرو سمجھنے والے یہ بات سوچنا چاہتے ہیں۔

ترکی شام میں فوج بھیج سکتا ہے، عراق میں فوج بھیج سکتا ہے، یہاں تک کہ لیبیا میں بھی فوج کشی کر سکتا ہے مگر بیت المقدس کی آزادی کے لئے صرف جذباتی تقاریر کرتا ہے یا صرف خواب دکھا کر بیوقوف بنا رہا ہے۔

طیب اردگان نے اب ہر اسلام مخالف اقدامات کو ایک معقول وجہ فراہم کر دی ہے کہ ہندوستان اسی اصول کے تحت بابری مسجد کو رام مندر میں تبدیل کرنے کا حق رکھتا ہے اور اسرائیل بیت المقدس کو یہودیت کی طرز پر تبدیل کرنے کا حق حاصل کر سکتا ہے۔

ہمارے حکمران اپنے چھوٹے سے ذاتی مفاد کی خاطر پوری مسلم امہ کے لئے مسائل پیدا کر دیتے ہیں اور ایک بیوقوف طبقہ ان کے غلط فیصلوں کو مرچ مصالحہ لگا کر اسلام سے نتھی کر دیتے ہیں اور جب دوسری اقوام اسی اصول کے تحت کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو ان کو اس میں اسلام دشمنی نظر آنے لگ جاتی ہے گویا پوری دنیا ہماری زرخرید غلام ہے اور ہمارا حق ہے کہ ہم زبردستی دوسروں پر اپنی سوچ مسلط کریں جبکہ دوسرے بھی ہماری ہی سوچ کے مطابق ہی چلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں