خدا کرے کہ میری عرض پاک پر اترے (سید صفدر رضا)

صحراوں، دریاوں، جھیلوں، پہاڑوں، جزیروں، ندیوں، ابشاروں، ساحل سمندر دیدنی جبکہ فطری مناظر اور خوبصورت نظاروں کی سرزمین جسے جنت کا آدنی خطہ ارضی کہوں تو غلط نہیں۔ اپنی ثقافت و تاریخ میں بے نظیر اوراق کی حامل ہے۔ میری ارض پاک کی آزادی کی خاطر جہاں جوانوں نے اس کے دریاؤں کے ساگرو ں کو اپنے لہو سے بھرا۔ نہ جانے کتنی ہی عصمتوں نے اپنی عفتوں کے چراغ گل کر اس کی آزادی کے چراغ روشن کئے۔ کئی سہاگنوں نے اپنے سہاگ اس کی بہاروں پر قربان کر دیئے۔ بےشمار ماؤں نے اسکی آزادی کی خاطر اپنی کوکھیں وار دیں۔ نونہالوں نے اسکی آزادی کی خاطر نیزوں کی انیوں کو اپنی شہ رگ سے بوسہ دیا۔تب جاکے یہ وطن کلمہ طیبہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والی سلطنت ٹھہرا۔محترم شاعر مشرق علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر کی صورت میں اور داعی پاکستان چوہدری رحمت علی نے 1933 میں ہی پنجاب کے پ صوبہ افغان سے الف کشمیر سے ک سندھ سے س بلوچستان سے تان ملا کر پاکستان نام تجویز کر کے پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ قرار دیا اور نوشی بھی واضح کر دیا جسکی تکمیل کی خاطر آج بھی کشمیر بھائیوں کی خاطر اقوام عالم کو جھنجوڑ رہے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی سچی، بے لوث اور بے داغ قیادت میں معرض وجود میں آنے والی اس مملکت خدا داد کو اج جس نہج پر دیکھتے ہیں دل خوں کے آنسو روتا ہے۔ یہاں بھائی بھائی کا دشمن بنایا جارہا ہے۔ اس وطن کی خاطر قربانی دینے والوں کی روحیں آج ہم سے سوال کرتی ہیں کہ ہماری قربانیوں کا بدلہ اس کو پہلے ہی دو لخت کر کے دے چکے ہیں اب کوئی کمی باقی رہ گئی ہے کہ اس وطن جس وطن کو ملت اسلامیہ اور اقوام عالم میں امن و اسلام کا پرچم بلند کرنا تھا اور عالم اسلام کی قیادت کرنا تھی آج اپنے ہی وطن میں بے لوث قیادت سے محروم ہے۔اج کا معلم علم بانٹنے کی بجائے بیچنے کو ترجیح دیتا ہے ،منصف انصاف کرے تو انصاف ہوتا نظر آنا چاہیئے، کچھ ڈاکٹر اپنے عظیم شعبے میں مریضوں سے ہمدردی کی بجائےکھال اتارتے نظر آتے ہیں، صنعت کار صنعت میں کام کرنے والے مزدوروں کا خیا ل کریں ان مزدوروں کی وجہ سے اور ان کے خون پسینے کی بدولت صنعتوں ملوں مشینوں کی چمنیوں سے دھواں نکلتا ہے۔ تاجر اصل اشیاء کی بجائے منافع خوری کی خاطر ناقص اشیاء فروخت کرتے ہیں، گوالے دودھ میں پانی ملانا اپنا حق جانتے ہیں۔ادیب و مصنف بزرگان دین کی بجائے فکشن اور دیو مالائی کہانیاں قوم کو دے رہے ہیں، کچھ صحافی جن کے قلم کی نوک سے سرحدوں کی حفاظت نظریہ پاکستان کی حفاظت ہونی چاہیئے مگر وہ مختلف لیڈرز صاحبان کے قصیدے لکھنے میں مصروف ہیں ہمارا ٹی وی حجاب کی بجا ہے ننگے سر و عریانیت کو فروغ دے رہا ہے۔ ڈرامے اخلاقی پستی کی جانب گامزن ہیں ہمارے مختلف ادارے عوام کے جائز حقوق بھی ناجائز طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے سیاست دان ملک ملت سے مخلص ہونے کی بجائے اپنی سیاسی وابستگیوں سے وفاداری نبھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ بل اور قانون اسمبلی میں پیش اور پاس ہوتے ہیں جنسے انھیں فائدہ ہو۔ انکی سیاسی جماعت کا فائدہ ہو عوام کا کچھ خیال نہیں کیا جاتا۔ کیا اس لیئے یہ وطن حاصل کیا گیا تھا؟ 14 اگست 1947 میں قوم کو ایک وطن کی ضرورت تھی۔ شاید آج وطن کو اک قوم کی ضرورت ہے مگر ہم پاکستانی کی بجائے سندھی، پنجابی، بلوچی، پٹھان اور مہاجر میں تقسیم ہیں۔ ہمیں اس وطن کو جو شہداء کی نشانی اور جنت ارضی ہے۔ مزید سجانا سنوارنا ہے اس کے گوشے گوشے کی حفاظت کرنی ہے تو ہمیں سیاسی لسانی فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر سوچنا ہوگا۔ اپنی ذمہ داری صادق و امین بن کر نبھانی ہے۔ اس کی شہ رگ ہندو بنیئے کے شکنجے سے عملاً آذاد کروانی ہوگی دہشت گردوں کو جنہوں نے اس کا امن لوٹا ہے اپنے ہی اردگرد گہری نظر رکھ کر تلاش کرنا ہے ۔اداروں کی اصلاح ہم نے مل کر کرنی ہے۔بد عنوانی کا راستہ ہم سب نے ملکر روکنا ہے۔مخلص سیاستدانوں کو مضبوط کرنے کی جستجو کر نی ہے چاہے انکی وابستگی کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔ کریپشن کے خاتمے کے لئے خود دیانتداری اپنانی ہوگی۔ حکومت کوئی بھی ہو اس مملکت کو حقیقی فلاحی ریاست بنانا ضروری ہے۔جس ادارے میں نقص ہے۔ حکومت کی بجائے عوام اصلاحی پہلو اجاگر کرے۔ ہمارے کھلاڑی اور فنکار پوری دنیا میں اس کا پرچم لہرانے کی جستجو میں مصروف رہیں۔ یہ وطن کسی ایک سیاسی جماعت فرقے یا صوبے کا نہیں ہم سب کا ہے اس کی قدر و منزلت میں اضافہ کرنا ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے ہم سب یہ سوچنے کی بجائے کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے۔ یہ دیکھیں کہ ہم نے کیا دیا ہے پاکستان کو آج یوم آذادی کے موقع پر موٹر سائیکلوں کے سلنسر نکالنے کی بجائے سڑکوں پر طوفان بدتمیزی برپا کرنے کی بجائے۔ شہیدوں کی روحوں کو کلام پڑھ کر بخشیں۔ اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کے لئے شجر کاری کریں۔ انکے نام سے منسوب درخت لگوائیں۔ قلب صمیم سے اس کو سجانے سنوارنے کا
خدا سے عہد کریں اپنی نفرتیں کدورتیں ختم کر کے ذہنی آذدی حاصل کریں عبادت بجا لائیں مل کر دعا کریں کہ
خدا کرے کہ میری عرض پاک ہے اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

اپنا تبصرہ بھیجیں