پلوامہ حملہ اور بھارتی ردعمل (ساجد خان)

گزشتہ ہفتے مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج پر خودکش حملے میں چالیس کے قریب فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔
اس واقعہ کے بعد ہندوستانی میڈیا نے طوفان بدتمیزی کی انتہا کر دی جبکہ ہندوستانی سیاست دانوں نے بھی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔پاکستان پر حملہ کر دیا جائے، اس کو عالمی سطح پر تنہا کیا جائے، کے مطالبات سامنے آنے لگے۔
یہاں تک کہ پاکستان کو ٹماٹر بیچنے سے بھی انکار کر کے یہ سمجھا گیا کہ شاید پاکستان کے پاس سبزیوں کی کمی ہے اور ہم بھوکے مر جائیں گے۔

اس ردعمل پر سوائے ہنسنے کے اور تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ہندوستان کو سمجھنے کے لئے بہت سی باتوں کی ضرورت ہے۔ ہندوستان اور پاکستان پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ ایٹمی طاقت بھی ہیں اور ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک کو ایسا بچگانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ آج نا ہی 1965 کا زمانہ ہے اور نا ہی 1971 کہ ٹینک آئیں گے،فوج کی پیش قدمی ہو گی بلکہ صرف ایک بٹن دبانے سے تباہی کا وہ منظر سامنے آئے گا،جس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔
ہندوستانی وزیراعظم کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ الیکشن سے قبل نفرت آمیز ماحول پیدا کرنے سے وقتی مفاد تو حاصل کیا جا سکتا ہے مگر وہ نفرت دائمی ہی رہے گی۔آج پورے ہندوستان میں کشمیریوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔ ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں کشمیریوں پر باقاعدہ حملے کۓ جا رہے ہیں اور انہیں علاقے سے نکلنے کا کہا جا رہا ہے۔یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم کشمیری طلباء پر حملے کۓ جا رہے ہیں،ان پر تشدد کی بہت سی ویڈیوز بھی منظر عام پر آ گئی ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ کاروباری مراکز پر یہ نوٹس لگائے جا رہے ہیں کہ “کتوں اور کشمیریوں کا داخلہ ممنوع ہے”۔
یہ نفرت پھیلا کر آپ کشمیریوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں کہ ہم آپ کو آپ کی مرضی کے مطابق زندہ رہنے کا حق نہیں دیں گے۔
آپ کو آزادی بھی نہیں دیں گے مگر آپ کو ہندوستان میں جانور کے برابر درجہ دیں گے۔

اب اگر ہم یہاں حقائق پر بات کریں تو پہلا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ کشمیر میں خودکش حملہ آور کون تھا۔
کیا وہ پاکستانی تھا،نہیں بلکہ وہ کشمیری نوجوان تھا پھر پاکستان پر غصہ نکالنے کی وجہ کیا ہے۔
کیا یہ سچ نہیں کہ حملہ آور چند سال قبل ہندوستانی فوج کے مظالم کا نشانہ بنا تھا ؟
جب وہ گرفتار ہوا تو اسے اس کے جرم کی باقاعدہ سزا کیوں نہیں دی گئی اور اگر بیگناہ تھا تو اسے گرفتار کر کے تشدد کیوں کیا گیا۔
ظاہر ہے کہ وہ بیگناہ تھا تبھی تو اسے آزاد کر دیا گیا لیکن اس اذیت اور تذلیل کا ازالہ کس نے کرنا تھا جو اس نوجوان کی ہندوستانی فوج نے کی تھی ؟
اگر وہ کشمیری نوجوان دہشتگرد بنا تو اسے دہشتگرد بنانے کی ذمہ داری وہ سلوک ہے جو مقبوضہ کشمیر میں روا رکھا جا رہا ہے۔
اس لئے جہاں آپ پاکستان کو برا بھلا کہہ رہے ہیں وہیں ہندوستان کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہئے کہ آخر اس واقعہ کا پس منظر کیا ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں میں،کشمیر کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو قتل کیا گیا ہے،خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے۔
اس صورتحال کے بعد بھی اگر کوئی یہ الزام عائد کرے کہ ہندوستانی فوج پر حملے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے تو یہ دنیا کو بیوقوف بنانے کی کوشش ہے۔

جب سات لاکھ فوج بھی کشمیر میں امن قائم نہیں کر سکتی تو یہ ہندوستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
جہاں تک بات ہے فوج پر حملے کی تو ہندوستان کے سیاست دان اور دانشور یہ الزام لگا رہے ہیں کہ یہ حملہ نریندر مودی کو فائدہ پہنچانے کے لئے کیا گیا کیونکہ ہندوستان میں الیکشن قریب ہیں اور بی جے پی کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اسے واضح شکست نظر آ رہی تھی۔
اس بات میں بہت حد تک وزن بھی ہے کیونکہ اس حملے کا سب سے زیادہ سیاسی فائدہ نریندر مودی کو ہی پہنچا ہے۔

پاکستان گزشتہ پندرہ برس تک دہشتگردی کا شکار رہا۔
خودکش حملے اور بم دھماکے معلوم بن چکے تھے۔
پاکستان کی خفیہ اداروں نے ایسے ثبوت بھی پیش کۓ کہ جس سے ثابت ہوا کہ ان دہشتگردانہ کارروائیوں میں ہندوستان ملوث تھا لیکن پاکستانی قوم نے تو کبھی انتقام میں ہندو برادری پر حملے نہیں کۓ تھے اور نا ہی انہیں علاقوں سے نکل جانے کے لئے کہا گیا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اقلیت ہمارے ملک کا ہی حصہ ہیں اور وہ اس ملک سے بھی اتنے ہی مخلص ہیں جتنی مسلمان برادری مگر ہندوستان ایک دھماکے کے بعد ہی سب آداب بھول گیا اور مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے۔
اس پورے واقعہ میں کیا کسی حکمران نے بھارت کی خفیہ ایجنسیوں پر بھی انگلی اٹھائی کہ تم کہاں غائب تھے اور یہ حملہ روکنے میں ناکام کیوں ہوئے ؟
ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کو پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کے بجائے بھارتی فوج سے جواب طلب کرنا چاہئے کہ آخر ایک عام سا شہری نوجوان حملہ کرنے پر کیوں مجبور ہوا۔
کشمیری عوام ہندوستان سے کیوں نالاں ہے،ان کا قتل عام کیوں کیا جا رہا ہے۔

جس دن ہندوستان نے ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش شروع کر دی،انہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہندوستانی فوج پر حملے پاکستان کی آشیرباد پر نہیں ہو رہے بلکہ فوج کے ظالمانہ رویے کی وجہ سے کشمیری نوجوان اس حد تک جانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
ہندوستان کو یہ حقیقت مان لینی چاہئے کہ پاکستان ایک علیحدہ آزاد ریاست ہے اور آپ دوست تو بدل سکتے ہیں مگر پڑوسی نہیں بدل سکتے۔
اس لئے نفرت پھیلانے اور جنگ کرنے کے بجائے معاشی ترقی میں مقابلہ کریں تاکہ دونوں ممالک خوشحال رہیں اور یہ بھی مت بھولیں کہ پاکستان پر حملہ کی صورت میں عوام بھی اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آۓ گی۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں