مہنگائی کا طوفان لیکن گھبرانا نہیں (ساجد خان)

پاکستان تحریک انصاف کے حکومت میں آتے ہی گویا قوم اچانک ہی ایک سہانے خواب سے بیدار ہو گئی۔
وہ ملک سے باہر پڑا پیسہ واپس لانا،وہ کرپشن ختم کرنے کے دعوے۔
خوشحالی ہی خوشحالی اور عوام کی حکمرانی،یہ سب خواب نہیں تھے تو اور کیا تھے۔
غیر ممالک سے ڈالر کیا آنے تھے،ہم سے تو اپنے ملک میں ہی ڈالر کو سنبھالنا مشکل ہو گیا ہے لیکن حکومت کو پرواہ ہی نہیں کہ ڈالر اتنا مہنگا ہونے سے ہماری معیشت کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔
ایک مثال دیتا چلوں کہ گزشتہ دنوں پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت اڑتالیس پیسے کم ہوئے۔
جس سے پاکستان کے بیرونی قرضوں میں ستر ارب روپے کی کمی دیکھنے میں آئی۔
اب آپ خود سوچیں کہ جب صرف آدھے روپے سے ستر ارب روپے کا فرق پڑتا ہے تو گزشتہ پانچ ماہ میں جو ڈالر کی قیمت تیس سے چالیس روپے بڑھی ہے تو ہم پر کتنے ہزار ارب روپے کا اضافی بوجھ بڑھ گیا ہو گا۔
بجلی مہنگی ہو چکی ہے،گیس مہنگی ہو چکی ہے۔
سبزیاں اور پھل تک مہنگے ہو چکے ہیں لیکن جب عوام شکوہ شکایت کرے تو وزیراعظم صاحب تاریخی جملہ “پاکستانیوں! گھبرانا نہیں ہے” کی لوری سنا کر اپنی ذمہ داری پوری کر دیتے ہیں۔
سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اتنے کمزور ہیں کہ وہ چھ ماہ بعد بھی بچوں کی طرح میڈیا کو بتاتے ہیں کہ ابھی تو میں سیکھ رہا ہوں نا۔

وزارت اعلیٰ کا عہدہ نہایت ذمہ دارانہ ہے نا کہ کوئی تربیتی کیمپ یا ٹریننگ سینٹر ہے کہ اناڑی کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا جائے۔
وزیراعظم پاکستان ایک ضد کر کے عثمان بزدار کو وسیم اکرم قرار دیتے آ رہے ہیں،ان کو سمجھنا چاہئے کہ ضروری نہیں ہے کہ آپ ہر بار ہی صحیح ہوں اور یہ بھی لازم نہیں ہے کہ کرکٹ میں شہرت پانے والا آپ کا وسیم اکرم سیاست میں بھی کامیاب ہو۔

دوسری طرف روزمرہ کی ہر چیز مہنگی ہوتی جا رہی ہے اور حکومت ایک ہی ڈھنڈھورا پیٹے جا رہی ہے کہ ہمیں خالی خزانہ اور بھاری قرضے وراثت میں ملے۔
یہ دعویٰ تو ہر نئی حکومت اقتدار میں آ کر کرتی ہی ہے اور جاتے وقت بھرے خزانے کا دعوی بھیٰ کرتی ہے۔
چلیں مان لیا کہ گزشتہ حکومت نے خالی خزانہ دیا لیکن کیا سبزی اور پھل کی بڑھتی قیمتیں بھی گزشتہ حکومت کا تحفہ ہے یا اس مسئلے کا بھی خالی خزانہ سے تعلق ہے ؟
کیا عثمان بزدار المعروف وسیم اکرم کو یہ بھی ابھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ سبزی اور پھل کی قیمت کو کیسے کنٹرول کیا جاتا ہے ؟
پنجاب کے باسیوں کا کیا گناہ اگر آپ کے وسیم اکرم کچھ کرنا نہیں جانتے ؟
ایک عام پاکستانی کی زندگی کتنی مشکل ہوتی جا رہی ہے،اس کا اندازہ کرنا ہی مشکل ہے۔
غریب کے گھر میں مہنگائی کی وجہ سے گوشت اور پھل تو ویسے ہی کب کا حرام ہو چکا تھا،اب سبزی بھی حرام ہوتی نظر آ رہی ہے۔
ان حالات میں غریب کے پاس دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔
چوری اور ڈکیتی کر کے گھر کے اخراجات چلاۓ یا اپنی جان لے لے۔

وزیراعظم صاحب کو سمجھنا چاہئے تھا کہ ایک عوامی نمائندہ جو کہ ضلع ناظم بھی رہا ہو اور گزشتہ حکومت میں ایم پی اے بھی رہا ہو،اس کے اپنے گھر میں بجلی نا ہونا ایمانداری کی علامت نہیں ہے کہ آپ اس واقعہ کو تعریف کے طور پر پیش کر کے وزارت اعلیٰ سونپ دیں بلکہ یہ نااہلی کا ثبوت ہے کہ جو عوامی نمائندہ اپنے گھر میں بجلی کا کنکشن نا لگوا سکے وہ پنجاب جیسے بڑے ملک کی باگ دوڑ کیسے سنبھال سکے گا۔
ایسے صوبے میں جہاں پرویز الہٰی اور شہبازشریف جیسے مضبوط وزراء اعلیٰ حکومت کر چکے ہوں وہاں عثمان بزدار جیسے کمزور وزیر اعلیٰ لانے کا مطلب صرف وقت پاس کرنا ہی نظر آتا ہے،جیسے اگلے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب سے جیتنے کی خواہش ہی نا ہو۔
حکومت پاکستان کو ہوش کے ناخن لینا چاہئیں۔
کل تک مفت تعلیم اور علاج کے دعوے کرنے والوں کی حالت یہ ہے کہ جامعات کے بجٹ کو اکتیس ارب روپے سے کم کر کے چودہ ارب روپے کر دیا گیا ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی فیس بھی مہنگی ہو گئی ہے۔
ایک غریب شہری کو یہ تسلی ہوتی تھی کہ سرکاری ہسپتال جیسے بھی ہوں،وہاں سستا علاج ممکن ہے۔
اب وہ علاج کے لئے کہاں جائے گا ؟
راجن پور میں سو کے قریب صحت کارڈ تقسیم کر کے سمجھا کہ حکومت نے ذمہ داری پوری کر دی ہے۔
کیا ملک ایسے چلاۓ جاتے ہیں جس طرح نیا پاکستان چل رہا ہے ؟
اگر اور کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے تو کم از کم وزراء اعلیٰ ہی ایسے لے آتے جو کم از کم عوام کو جھوٹی تسلیاں دے کر ہی خوش رکھ سکتے۔
کئ ہفتے گذر جاتے ہیں عثمان بزدار کی شکل دیکھے ہوئے جیسے وہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ریٹائرمنٹ لائف گزارنے کے لئے بھرتی ہوئے ہیں۔
وزیراعظم صاحب! آپ کو ہر دوست ملک سے امداد مل چکی ہے مگر وہ کہیں بھی خرچ ہوتی نظر نہیں آ رہی۔

نا کوئی ٹوٹی پھوٹی سڑک تعمیر ہو رہی ہے اور نا ہی کوئی نیا ہسپتال یا یونیورسٹی تعمیر ہو رہی ہے۔
کہاں گئیں وہ پولیس اصلاحات اور کہاں ہے جنوبی پنجاب صوبہ۔
پاکستان تحریک انصاف کو اب جان لینا چاہئے کہ اب ہنی مون کا وقت گزر چکا،اب آپ گزشتہ حکومت پر الزامات لگا کر بیوقوف نہیں بنا سکتے،موسم سرما اپنے اختتام کو ہے۔
گرمیوں میں لوڈشیڈنگ سے کیسے مقابلہ کیا جائے گا جبکہ اس بار سردیوں میں بھی لوڈشیڈنگ کی شکایات عام رہیں۔

اس سے پہلے کہ عوام تنگ آ کر سڑکوں پر آۓ،کچھ ایسے اقدامات کۓ جائیں جس سے محسوس ہو کہ حکومت عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ورنہ آپ خود اپوزیشن کو موقع دیں گے کہ وہ آپ کے خلاف تحریک کا آغاز کرے۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں