افضل کوہستانی کا قتل اور ہماری زمہ داریاں ۔۔۔! (میر افضل خان طوری)

کوہستان میں جن لڑکیوں کو بےگناہ قتل کر دیا گیا تھا، افضل کوہستانی نے ان کے ملزمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کیا تھا۔ وہ اس مقدمے کو لڑنے کیلئے ایبٹ آباد کی عدالت میں پیشی کیلئے آیا تھا۔ اپنے قتل سے کچھ لمحے قبل اس نے ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا تھا۔ جس میں اس نے اپنے ساتھ پولیس کے بدترین روئے کی سخت شکایت کی تھی۔

انھوں نے اپنے ویڈیو میں کہا کہ ملزمان نے میرے تین بھائیوں کو پہلے ہی قتل کر دیا ہے اور اب وہ میرا بھی پیچھا کر رہے ہیں۔ وہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے شکایت کی کہ پولیس نے انکا لائسنس والا پستول بھی قبضے میں لے لیا ہے اور جب انھوں نے پولیس آفسرز سے اس کی شکایت کی تو پولیس نے ان کو وحشیانہ شدد کا نسانہ بنایا۔

یہ ظلم کوئی آج نہیں ہو رہا ہے۔ نئے پاکستان میں ظلم کو طریقہ واردات بھی نیا ہو چکا ہے۔ ساہیوال کا واقعہ اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ آہستہ آہستہ واقعے کے زمہ داروں کی تاج پوشی بھی کی جا رہی تھی کہ افضل کوہستانی کے قتل کا بھیانک واقعہ رونما ہوا ۔ پھر یہ واقعہ بھی ٹھنڈا پڑ جائے گا اور زمہ داروں کو بھی ہم سب بھول جائیں گے کہ ایک نیا واقعہ رونما ہوگا۔ جب تک سرکاری ادارے زمہ داروں کو بچاتے رہیں گے تب تک پولیس کا عوام پر ظلم جاری رہے گا۔

کوہستان کیا ہے؟ کیا یہ کوئی غیر علاقہ ہے؟ کیا وہاں پر قانون اور پولیس نام کی کوئی چیز نہیں ہے؟ آپ سب کا جواب یہی پوگا کہ ہاں وہ پشاور کے کافی دور ہے وہاں پر اتنی حکومتی رٹ ابھی تک قائم نہیں ہوئی۔ یعنی ہم سب اس بات کے ساتھ ہی اپنی اپنی زمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔

لیکن کیا ایبٹ آباد بھی کوہستان جیسا ہے ؟ کیا ایبٹ آباد بھی کوئی پولیس نہیں ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایبٹ آباد میں لوگ اسلحہ لے کر گھومتے ہوں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایبٹ آباد جیسے شہر میں دہشت گرد ملزمان کسی کو اتنی بے دردی سے قتل کرے۔

یہ کوئی عام واقعہ نہیں ہے یہ ظلم کی انتہا اور کھلی بربریت ہے۔ پاکستان میں کب قانون اور انصاف کا بول بالا ہوگا؟ کب ہم اس ملک میں خود کو محفوظ تصور کر سکیں گے؟


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں