جذبات کا اظہار۔۔۔! (میر افضل خان طوری)

انسان وہ نہیں ہوتا جو نظر آ رہا ہوتا ہے۔ اصل انسان تو اس کی شخصیت ہوتی ہے۔ شخصیت کا تعلق فرد کے اصل جوہر ہے۔ انسان میں اپنی ذات کا شعور رکھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ان تمام صلاحیتوں کا درست اور صحیح استعمال انسان کی اصل شخصیت کا پتا دیتی ہے۔ ان صلاحیتوں میں انسان کے جذبات بھی شامل ہیں۔ انسان کی شخصیت پر ان کے جذبات کا سب سے بڑا اثر ہوتا ہے۔
کسی بھی انسان میں عقل اور جذبات ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ عقل ہمیشہ لاجکس کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرتی ہے۔ ان فیصلوں پر عمل درآمد کیلئے جذبات کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اگر مطلوبہ کام کو کرنے کیلئے جذبات کا فقدان ہو تو وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔
ہر ایک انسان دوسرے انسانوں کے رویوں کے بارے میں بھی جذبات رکھتا ہے۔ انسان اپنے ذہن میں مختلف چیزوں کے بارے میں ان گنت احساسات بھی رکھتا ہے۔ جب انسان ان جذبات اور احساسات کے اظہار میں ضرورت سے زیادہ تاخیر کرنے لگتا ہے تو اس کے دل میں شکوک و شبہات جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان شکوک و شبہات کیوجہ سے ناصرف اس کی ذاتی زندگی بے چین ہونا شروع ہو جاتی بلکہ وہ دوسرے لوگوں کیلئے بھی مشکلات کھڑی کرنا شروع کر دیتا ہے۔
جب آپ محسوس کریں کہ آپ کی حق تلفی ہوئی ہے تو فوری طور پر اسکا اظہار کرنا عقل مندی اور دانشمندی کی علامت ہے۔ تاخیر کرنے سے نا صرف بات کرنا مشکل ہوگی بلکہ آپ کی بے تابی اور غصے میں بھی اضافہ ہوگا۔دوسرے افراد کے بارے میں آپ کے خیالات منفی ہو جائیں گے۔
اگر آپ وقت پر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرتے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ آپنے تعلقات کا جنازہ خود نکال رہے ہیں۔ اس طرح تعلقات کی خرابی کے بارے میں نہ تو آپ کو کوئی علم ہوگا اور نہ ہی آپ کے دوستوں کو اس کے بارے میں آگاہی ہوگی۔
اگر کسی شخص کے کسی بات کو آپ دل پر لیے بیٹھے ہیں۔ تو ہو سکتا ہے یہ بات اسکی بیوقوفی کا نتیجہ ہو اور اسکو اپنی حماقت کا علم ہی نہ ہو۔
اسی طرح کبھی ہم اپنے پیاروں سے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں اتنی دیر کر دیتے ہیں کہ وہ اس دنیا کو چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ ان کو آخر تک یہ پتہ نہیں چل جاتا کہ ہم ان سے کتنی محبت کرتے تھے۔
اسی طرح وقت سے پہلے جذبات کا اظہار کرنا انسان کی طاقت کو کمزور کر دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جذبات ہی انسان کی اصل طاقت ہوتی ہے۔ جذبات انسان کو ایک غیر معمولی قوت فراہم کرتے ہیں۔ اس قوت کے نتیجے میں وہ زندگی کے بڑے بڑے طوفانوں کا مقابلہ کرتا ہے اور اپنے مقررہ اہداف کو حاصل کرلیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے جذبات کا اظہار مناسب موقع و محل پر کردے تاکہ اس غیر معمولی قوت کا بر وقت استعمال ممکن بنایا جا سکے۔
جب ہم اپنے جذبات کو عقل و علم کی روشنی میں مثبت انداز سے پیش کرنا سیکھ جائیں گے تو ہم انفرادی ترقی کے ساتھ ساتھ اجتماعی ترقی کے تمام سنگ میلوں کو عبور کر سکیں گے۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں