اسلامی جہاد کے امریکی مفادات
میں نے جب ہوش سنبھالا تھا تو مجھے ہر طرف ایک ہی بات نظر آتی تھی۔ خواہ وہ پی ٹی وی تھا یا اخبارات، سب ایک ہی رٹ لگائے نظر آتے تھے۔ ہمارے برادر اسلامی ملک افغانستان پر کافر ملک نے حملہ کر دیا ہے۔ ہمیں اپنے افغان بھائیوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔
سویت یونین کی نظر افغانستان پر نہیں بلکہ پاکستان کے گرم پانیوں پر ہے۔ ہم پر جہاد فرض ہو گیا ہے، کفر و اسلام کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔
جنت کے ٹکٹ بٹنے لگے، حوروں کے خدوخال کی نمائش ہونے لگی۔ مولوی خطبات میں قوم کے ضمیر جھنجھوڑنے لگے۔جان دو، چندہ دو اور نہیں تو دعا ہی دے دو۔ سینکڑوں ہزاروں مجاہدین تیار ہونے لگے۔
اخبارات میں ان کے کارنامے اور فضائل بیان کئے جانے لگے۔
اس وقت مجھے دو لوگ شکل سے ہی زہر لگتے تھے۔
ولی خان اور جی ایم سید۔
مجھے ان کی تصاویر دیکھ کر ہی غصہ آ جاتا تھا کہ یہ ہمارے ملک کی سلامتی کے دشمن ہیں۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ یہ غدار ہمارے ہی ملک میں رہ کر دوسروں کے وفادار کیسے ہو سکتے ہیں، یہ مر کیوں نہیں جاتے۔
وقت بدلتا گیا اور جب کچھ شعور آیا تو مجھے سمجھ آئی کہ جی ایم سید تو پاکستان بنانے والوں میں شامل تھا اور غدار ولی خان بھی نہیں تھا بلکہ وہ آمر ضیاءالحق تھا جس نے ڈالر کو اوڑھنا بچھونا سمجھ لیا تھا۔ بچے ہماری قوم کے مر رہے تھے مگر اکاؤنٹ اس کے بیٹوں کے بھر رہے تھے۔
میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ افغانستان میں اسلامی جہاد نہیں تھا بلکہ امریکی جہاد تھا، جس کا مقصد اپنے مخالف سپر پاور ملک کو کمزور کرنا تھا۔
سویت یونین کو نا ہی ہمارے گرم پانیوں سے مطلب تھا اور نا ہی اسے پاکستان سے کچھ مسئلہ تھا۔
وہ تو بس افغانستان میں اپنی اتحادی حکومت کی مدد کے لئے آیا تھا بالکل اسی طرح جس طرح آج شام میں اتحادی حکومت کی مدد کے لئے موجود ہے۔
سویت یونین جنگ ہار گیا، میں نے اس کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔ میں نے اپنے محلے میں لوگوں کو خوشیاں مناتے دیکھا، مٹھائی کے ساتھ ساتھ مبارک دیتے دیکھا تھا لیکن اس فتح کا فائدہ کس کو ہوا۔ اسلام کو یا امریکہ کو ؟ سویت یونین کی شکست کے بعد امریکہ پوری دنیا کا اعلیٰ مالک بن گیا۔
میں تاریخ کا زیادہ اچھا طالب علم تو نہیں ہوں لیکن جتنا میں جانتا ہوں، اس کے مطابق دوسری جنگ عظیم سے سویت یونین کے ٹوٹنے تک، امریکہ نے کسی اسلامی ملک پر حملہ نہیں کیا تھا لیکن مخالف سپر پاور کے خاتمہ کے بعد امریکہ نے ہر اس اسلامی ملک کو تباہ کرنے کی کوشش کی، جو کبھی سویت یونین کے اتحادی بلاک میں تھا۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن!
ان سب ممالک کا کیا قصور تھا سوائے اس کے کہ یہ سرد جنگ کے دوران امریکہ مخالف بلاک میں تھے۔
افغانستان میں امریکی جہاد تک، پاکستان امریکہ کا نہایت لاڈلا تھا مگر سویت یونین کو شکست ہوتے ہی، پاکستان کی سب خوبیاں برائیوں میں بدل گئیں۔
امت مسلمہ کے لئے یہ واقعہ سبق سیکھنے کے لئے کافی تھا مگر وہ مسلمان ہی کیا جو ایک ہی سوراخ سے بار بار نا ڈسا جائے۔
افغانستان میں امریکی جہاد کے تقریباً تین دہائیوں کے بعد ایک مرتبہ پھر تاریخ نے خود کو دھرایا۔
وہی اسکرپٹ، وہی سعودی عرب پروڈیوسر اور وہی امریکہ ڈائریکٹر صرف بدلا تھا تو جنگ کا میدان۔
اس دفعہ میدان جنگ افغانستان کے بجائے شام کو بنایا گیا تھا اور امریکی جہاد کو اسلامی جہاد میں تبدیل کرنے کی ذمہ داری پاکستان کی جگہ ترکی کی تھی۔
افغانستان میں امریکی جہاد کو کفر و اسلام کی جنگ کا نام دیا گیا جبکہ شام میں امریکی جہاد کو شیعہ و سنی کی جنگ کے نام سے نوازا گیا۔
افغانستان میں سویت یونین کی اتحادی حکومت کو ختم کرنا تھا تو شام میں ایران کی اتحادی حکومت کے خاتمے کا منصوبہ تھا۔
جہاد کا آغاز ہوا اور اس بار بھی دنیا بھر سے نام نہاد مجاہدین کو مدعو کیا گیا۔
ان کی تربیت اور اسلحہ کا انتظام کیا گیا۔
یہ مجاہدین اپنے اصولوں کے اتنے پابند تھے کہ پورا شام تباہ کر دیا مگر کئی سال سرحدوں پر بیٹھ کر اسرائیل کی طرف ایک گولی بھی چلانا گوارا نہیں کی۔
اردگان اسی طرح امریکہ کا لاڈلا تھا جس طرح اس وقت کا ہمارا آمر ضیاءالحق پیارا تھا لیکن بدقسمتی سے اس بار وہ مقصد پورا نا ہو سکا جو افغانستان میں پورا ہوا تھا۔
اثاثے دھڑا دھڑ مرنے لگے، جو بچائے جا سکتے تھے وہ دوبارہ افغانستان پہنچا دیئے گئے۔
اب شام کی جنگ ختم ہونے کو ہے اس لئے اردگان برا لگنے لگ گیا ہے لیکن کیا مجھے کوئی بتائے گا کہ اس خونی جنگ کا اسلام اور مسلم امہ کو کیا فائدہ ہوا۔ سوائے اس کے کہ ایک اور مسلمان ملک اسلام ہی کے نام پر تباہ ہو گیا۔
اب سوال یہ ہے کہ شام میں اس نام نہاد اسلامی جہاد کا حقیقت میں فائدہ کس کو ہوا ؟
اس سوال کے جواب کے لئے آپ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آج کے بیان پر توجہ دینا ہو گی۔
امریکی صدر نے کہا ہے کہ امریکہ کو گولان پہاڑی کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کر لینا چاہئے۔
گولان پہاڑی شامی علاقہ ہے، جس پر اسرائیل نے اسی کی دہائی میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا۔
اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ کسی ملک نے بھی آج تک اس علاقے پر اسرائیلی قبضہ کو تسلیم نہیں کیا ہے مگر اب امریکہ تسلیم کرنے جا رہا ہے۔
گولان پہاڑی کی اتنی کیا اہمیت ہے کہ اسرائیل اسے اپنا حصہ بنانا چاہتا ہے۔
مقبوضہ گولان پہاڑی میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو چکے ہیں اور اس تیل کو نکالنے کی ذمہ داری امریکی تیل کمپنیوں کی ہے۔
چند ماہرین کا یہ بھی دعویٰ سامنے آیا ہے کہ گولان پہاڑی میں تیل کے ذخائر سعودی عرب کے ذخائر سے بھی زیادہ ہیں جبکہ اسرائیل کے میٹھے پانی کا بڑا ذریعہ بھی گولان پہاڑی کا علاقہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو یہ علاقہ سونے کی چڑیا ہے جسے ہتھیانے کے لئے شام میں جہاد کا آغاز کیا گیا۔
اسرائیل اس علاقے کو قانونی طور پر حاصل نہیں کر سکتا تھا لہذا پہلے شام کو اندرونی طور پر انتہائی کمزور کیا گیا اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل شام میں جاری جہاد کا پھل حاصل کر سکے۔
ان سب حالات و واقعات کے بعد میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ افغانستان اور شام میں کئے گئے جہاد کا اسلام اور مسلم امہ کو سوائے تباہی کے اور کیا فائدہ حاصل ہوا لیکن دوسری طرف افغانستان جہاد میں امریکہ نے اپنے دشمن ملک سویت یونین کو توڑا جبکہ شام جہاد میں تیل کے ذخائر ہاتھ لگ گئے۔
اس موضوع کے اختتام پر صرف اتنا ہی کہوں گا کہ جس طرح دنیا میں جب تک بیوقوف زندہ ہیں، عقلمند بھوکا نہیں مر سکتا بالکل اسی طرح مسلم امہ میں جب تک ہمارے مجاہدین زندہ ہیں، امریکہ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا کیونکہ یہ مجاہدین دراصل امریکہ کے مفادات کے لئے ہی مسلم ممالک میں مسلمانوں سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔
نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔