روح اور انسانی حیات۔۔۔۔! قسط نمبر1 (میر افضل خان طوری)

قدرت نے حیوانات کیلئے حواس خمسہ کو شعور کا بنیادی زریعہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح دنیا کے ہر حیوان کے لیے روئیت کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ جانور صرف اندھیرے میں دیکھ سکتے ہیں جیسے الو اور چمگادڑ۔ اسی طرح کچھ جانور اندھیرے اور روشنی دونوں حالتوں میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسے بلی ، شیر ،گیدڑ ، لومڑی وغیرہ۔ انسان صرف روشنی میں دیکھ سکتا ہے۔ مگر انسان کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ عقل اور بولنے کی صلاحیتوں سے بھی نوازا گیا ہے۔
جو چیز انسان کو اپنی ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی اسکے بھی ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ عقاب کی چھوٹی سے آنکھ زمین پر رینگتی ہوئے چھوٹی سی چیونٹی کو بھی دیکھ لیتی ہے جو انسان کی اتنی بڑی آنکھ کو نزدیک سے بھی نظر نہیں آتی۔
عقل کہاں پر ہوتی ہے؟ جسم میں کس جگہ اپنا وجود رکھتی ہے؟ نظر نہیں آتی۔
اگر کسی کو سورج ، چاند اور ستارے نظر نہیں آتے تو ان کے وجود کا قصور نہیں ہے بلکہ اس آنکھ کی قوت بصارت کا نقص ہے۔بہت سی چیزیں وجود رکھتی ہیں مگر نظر ان کو دیکھنے سے قاصر ہوتی ہے۔ اسی طرح روح بھی اپنا وجود رکھتی ہے مگر انسانی حواس اور عقل ان کو درک کرنے سے قاصر ہیں۔
کسی مردہ انسان کی لاش کو اٹھانے کیلئے کبھی کبھار 4 یا 5 بندے بھی ناکافی ہوتے ہیں مگر یہ کونسی طاقتور قوت ہے؟ جس کی وجہ سے ایک زندہ دیو ہیکل انسان گھومتا پھرتا اور ناچتا رہتا ہے۔ اپنے وزن سے بھی ذیادہ وزن کو اپنے کندھوں پر اٹھاۓ پھرتا ہے۔
جسم ایک مادی چیز ضرور ہے۔ مگر اس مادی چیز کو کس قوت نے متحرک کر دیا ہے؟ وہ کونسی قوت ہے جو صرف ارادہ کرتی ہے اور جسم فوری طور پر افعال سر انجام دیتا ہے۔ جیسے ہاتھ ، پاوں، آنکھیں اور دل اس کے ایک حکم کے تابع ہیں۔ اعضاء جسمانی اس کے حکم میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے۔ وہ کونسی قوت ہے جو عقل کو استعمال کرتی ہے؟ وہ کونسی قوت ہے جو جذبات کو کنٹرول کرتا ہے۔
قرآن نے اس قوت کو روح کا نام دیا ہے۔
” وَيَسْاَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۖ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّىْ وَمَآ اُوْتِيْتُـمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا ”
سورۃ الاسراء ، آیت نمبر 85
“اور یہ لوگ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بہت ہی تھوڑا ہے”۔
جس طرح یہ پوری کائنات قدرت کے ارادہ کی پابند ہے اسی طرح جسم مادی روح کے ارادہ کا پابند ہے۔ روح جب بھی کسی کام کے ہونے کا ارادہ کرتی ہے تو جسم اس کے حکم کیمطابق عمل کرنے کیلئے متحرک ہوجاتا ہے۔انسان صرف ارادہ کرتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھ ، پاوں، آنکھ وغیرہ کو کام کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں کہتا۔
قدرت نے انسان کے جسم کے اندر اپنے ” کن فیکون ” ہونے کی عظیم نشانی رکھ دی ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا کہ “کیا تمہیں علم نہیں کہ آسمان کی بادشاہت تمہارے اندر ہے”۔
یعنی انسان کے جسم کی مثال ایک کائنات جیسی ہے۔ انسان کے اندر ایک پر اسرار علم کے خزائن پوشیدہ ہیں۔
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا کہ ” ائے انسان کیا تو خود کو ایک چھوٹا سا جسم مادی سمجھتا ہے جبکہ تمھارے اندر “عالم اکبر” پوشیدہ ہے”۔
معروف مغربی مصنف ڈاکٹر الیکسزل کرل کہتے ہیں کہ ” انسان اپنے جسم سے عظیم تر ایک چیز ہے اور اس پیمانہ خاکی سے باہر جھلک رہا ہے۔
خالق نے اپنے ہونے کی تمام تر نشانیاں انسان کے اندر رکھدی ہیں۔ ساری کائنات کو اپنی پہچان کا وسیلہ بنایا۔ خالق کے ہونے کا انکار صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کی نظر کی وسعت بہت تھوڑی ہو یا جن کے عقلوں پر تالے پڑے ہوئے ہوں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں