شخصیت سازی میں استاد کا کردار۔۔۔! (میر افضل خان طوری)

قوموں کے انقلاب کسی لڑائی،جنگ و جدل اور سیاست کے بڑے بڑے ایوانوں میں کبھی بھی نہیں آیا کرتے۔ قوموں کے انقلاب ماں کی کود اور درس گاہوں سے شروع ہوتے ہیں۔

کسی بھی انسان کیلئے انکی ماں کی گود سب سے پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ انسان اس اعظیم درس گاہ سے اپنے ابتدائی تعلیم کا آغاز کرتا ہے۔

ایک استاد معاشرہ انسانی میں انقلاب کا نقیب ہوا کرتا ہے۔ استاد اگر چاہیں تو ایک ذی شعور اور ذی وقار قوم کی تعمیر کر سکتا ہے۔ استاد کو معاشرے میں ایک رہنما اور رہبر کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح ایک کاریگر خام مال کو کسی کار آمد لوہے میں تبدیل کر دیتا ہے، ایک سنگ تراش کسی پھتر تو زندہ مجسمے کی صورت عطاء کرتا ہے۔ اسی طرح ایک بہترین استاد کسی بھی جاہل معاشرے کو ترقیافتہ ، باکمال اور باکردار معاشرہ بنا سکتا ہے۔

استاد ایک باغبان ہوتا ہے ۔ جس طرح ایک باغبان اپنے باغ کے درختوں اور پودوں کی خوبصورتی اور بہترین نشونما کیلئے تمام خود رو جڑی بوٹیوں کو وقت پر باہر نکال پھینک دیتا ہے۔ اسی طرح ایک استاد اپنے طلباء کی ذہنی نشونما کی آبیاری کرتا ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کے ذہنوں سے تمام تر برے خیالات اور توہمات کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ انکی ذہنی استعداد کار کو بڑھانے اور ان کو معاشرے کا ایک زمہ دار با مقصد فرد بنانے کیلئے اپنا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

ممتاز سائنسدان ڈاکٹر ابوالکلام فرماتے ہیں کہ ” میرے لئے سب سے بڑا اعزاز یہ ہو گا کہ لوگ مجھے ایک استاد کے نام سے یاد کرے”
استاد معاشرے کو نئی رفعتیں عطاء کرتا ہے۔ معاشرہ سازی کرتا ہے۔ استاد معاشرے کی فہم و فراست، درک و دریافت کی کی قوتوں کو نئی نہج پر منتج کرتا ہے۔

استادی پیشہ پیغمبری ہے۔ حضرت محمد مصطفی سید الانبیاء سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے پیشہ تدریس کو معراج عطاء کیا۔ آپ (ص) فرماتے ہیں” بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ”

استاد انسانوں کی کردار سازی کرتا ہے۔ استاد شخصیت سازی میں مانع تما تر عادات و خصائل کا خاتمہ کرتا ہے۔ جس کے بدلے میں معاشرہ علمی اور اخلاقی اسرار و رموز کا محور بن جاتا ہے۔ یہ خاموش علمی اور روحانی انقلاب صرف اور صرف ایک بہترین استاد کی مرہون منت ہے۔

اگر استاد اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کرتا ہے اور اپنے مقام و مرتبہ سے گر جاتا ہے۔تو وہ استاد اپنے طلباء کی ذہنی نشونما نہیں کر سکتا۔ وہ استاد خود روایتوں، فرسودہ رسم و رواجوں کا اسیر بن جاتا ہے۔ وہ اپنے طلباء کے اذہان کو بلندی عطاء نہیں کر سکتا۔ پھر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسانی معاشرے میں صرف لکیر کے فقیر اور غلام پیدا ہونگے۔ غلام قوم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی۔ غلام قوم سر اٹھا کر جینے سے ڈرتی ہے۔ ان کو محنت کرنے اور ترقی کرنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔

اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اداروں میں درس و تدریس کیلئے بہترین اساتذہ کو سلکٹ کیا جائے۔ مدرس یا معلم کو بہترین اخلاق اور خصائل کا پیکر ہونا چاہئے ۔ وہ طلباء کیلئے ایک رول ماڈل کا حامل ہو۔ طلباء کو انکی شخصیت میں اپنا عکس نظر آتا ہو۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں