کڑوی گولی سے چیخوں تک کا عوامی سفر۔۔۔! (ساجد خان)

گزشتہ حکومت میں جب مہنگائی میں اضافہ ہوا کرتا تھا تو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار میڈیا پر آ کر نہایت سکون سے کہا کرتے تھے کہ عوام کو کڑوی گولی تو کھانا پڑے گی۔
اس وقت کی اپوزیشن اس پر سخت احتجاج کرتی نظر آتی تھی اور پاکستان تحریک انصاف کے بل گیٹس اسد عمر قومی اسمبلی میں طویل تقریریں کر کے حکومت کو معیشت بہتر کرنے کے سبق دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی عوام کو حساب کتاب کر کے بتایا کرتے تھے کہ کس طرح حکومت پٹرول اور ڈیزل پر آپ کو لوٹ رہی ہے۔
عمران خان جلسوں میں کہا کرتے تھے کہ عوام کو لوٹا جا رہا ہے اور جان کر مہنگائی کی جا رہی ہے۔
عوام کو شعور دلانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ سہانے خواب دکھاتے رہے کہ ہمارے پاس بہترین ٹیم موجود ہے اور ہم نوے دن میں ملکی معیشت کو بہتر کر لیں گے۔
عوام نے ان سہانے خوابوں کو حقیقت سمجھ کر پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ تو دیا لیکن اقتدار ملتے ہی پہلی خوشخبری یہ سنائی کہ معیشت کی حالت ہماری توقع سے کہیں زیادہ خراب ہے۔
اس لئے ہمیں سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔
جس پر عوام پر ٹیکس بڑھا دیئے،ادویات مہنگی کر دیں،گیس اور بجلی کی قیمتوں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ڈالر بھی مہنگا کر دیا اور اب پٹرول اور ڈیزل کی قیمت بھی بڑھا دی ہے،جس کے اضافہ پر گذشتہ دور حکومت میں عمران خان اور اسد عمر گھنٹوں تنقید کیا کرتے تھے۔
عوام کو جو واحد تبدیلی نظر آئی ہے،وہ صرف یہ ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار تہذیب کے لہجہ میں کہا کرتے تھے کہ عوام کو کڑوی گولی تو کھانی پڑے گی لیکن موجودہ وزیر خزانہ تو اس بات کا لحاظ بھی کرنے سے رہے اور عوام کی چیخیں نکالنے کی نوید سناتے نظر آتے ہیں۔
جب صرف سات ماہ میں ہی عوام کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئیں ہیں تو انہیں لالی پاپ دے کر خاموش کر دیا کہ اگر سمندر سے تیل نکل آیا تو عوام کو ریلیف دیں گے یعنی ہم سے ہر چیز پر ٹیکس لینے کے بعد بھی حکمران عوام کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ ان کو ریلیف دیا جا سکے جبکہ انہی کٹھن حالات میں عوامی نمائندے اپنی تنخواہوں میں کئ گنا اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔
اب عوام کے پاس صرف یہی آپشن بچی ہے کہ دعاؤں میں سمندر سے تیل کا بڑا خزانہ مانگیں تاکہ حکومت ان کا تیل نکالنے سے باز آ جائے۔
دوسری طرف عوام ابھی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے صدمہ سے نہیں نکلی تھی کہ وفاقی وزیر اویس لغاری نے ایک اور بری خبر سنا دی ہے کہ اس سال عوام کو بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا ہو گا۔چند ہفتوں بعد جب عوام لوڈشیڈنگ کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرنا شروع کریں گے تو وزیر صاحب کہیں گے میں نے تو پہلے ہی خبردار کر دیا تھا اور وزیراعظم صاحب اسے اپوزیشن کی سازش قرار دیتے ہوئے لوڈشیڈنگ کا ملبہ گزشتہ حکومت پر ڈال دیں گے اور یوں حکومت اپوزیشن کی جنگ میں عوام اپنا مسئلہ ہی بھول جائے گی۔
یہ چوہے بلی کا کھیل ہم کئ سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی نے معیشت کی تباہی کا الزام مسلم لیگ نواز کی حکومت پر لگایا۔
مسلم لیگ نواز نے پیپلزپارٹی پر الزام لگایا تھا اور پیپلزپارٹی نے الزام جنرل مشرف کی حکومت پر لگا کر اپنی ذمہ داری پوری کی تھی۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اور کوئی بات مشترک ہو نا ہو لیکن ایک بات پر سب ہی متفق نظر آتے ہیں کہ حکومت میں آتے وقت خزانہ خالی تھا کیونکہ گزشتہ حکومت نے خزانہ لوٹا تھا جبکہ حکومت سے جاتے وقت خزانہ بھرا ہوا تھا جسے آنے والی حکومت نے لوٹ لیا اور اس لوٹ مار کا ازالہ عوام پر مہنگائی کا بم گرا کر ہی پورا کرنا ہے۔
یہ آئین میں کہاں درج ہے کہ حکمرانوں کی لوٹ مار کے بعد کڑوی گولی صرف عوام نے ہی کھانی ہے جبکہ ہمارے نمائندے کا دعویٰ کرنے والے ہمارے ہی پیسے پر عیاشیاں کرتے رہیں۔
حکومت پاکستان کی سوائے عوام کا خون نچوڑنے کے اور کوئی پالیسی نظر ہی نہیں آ رہی۔
اداروں میں کرپشن روکنے کے لئے کوئی ایسا نظام نہیں لایا جا رہا کہ جس سے قوم کا پیسہ محفوظ کر کے عوام کو کچھ ریلیف دیا جائے۔
ان کا مقصد صرف یہی رہ گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مہنگائی کرنے کے بعد نہایت بھونڈے طریقے سے اپنے غلط عمل کا دفاع کریں۔
پاکستان تحریک انصاف کو کوشش کرنی چاہئے کہ عوام پر کم سے کم مہنگائی کا بوجھ ڈالے تاکہ گزشتہ حکمرانوں اور ان میں کچھ تو فرق محسوس ہو۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں