قانون، انصاف اور تحفظ ۔۔۔! (میر افضل خان طوری)

برطانیہ کو بادشاہت سے آزادی دلانے والے سر ایڈورڈ کوک نے فرمایا تھا کہ” معاشرے اس وقت تک مہذب نہیں ہو سکتے جب تک ان میں قانون کی بجائے بادشاہ حکمران رہتے ہیں” جس معاشرے میں سیاستدان ، جرنیل ، وڈیرے، جاگیردار ملک کے قانون اور انصاف کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہوں، اس معاشرے میں انصاف اور تحفظ محض ایک خواب ہوتا ہے۔ مملکت پاکستان بھی کچھ ایسے ہی معاشرے کی عکاسی کر رہا ہے۔

گزشتہ تین دنوں سے کوئٹہ دھماکوں کے متاثرین دھرنا دئے ہوئے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان، جرنیل اور میڈیا کو اسکی کوئی فکر نہیں ہے۔ وہ اپنے اپنے معمول کا کاموں میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ ابھی تک 20 سے زائد افراد کی شہادت ہوچکی ہے۔ درجنوں افراد زندگی اور موت کے کشمکش میں ہسپتالوں میں پڑے ہیں مگر پھر بھی حکمرانوں کو ایک دن سوگ کا موقع بھی نہیں ملا۔

مجھے تو حیرانگی اس بات پر ہو رہی ہے کہ کیا اس ملک میں دھرنوں اور احتجاجی جلوس کے بغیر حکمران مرہم پٹی اور تعزیت کیلئے بھی نہیں آ سکتے؟

کیا ان کے مردہ ضمیر کو جگانے کیلئے جنازوں کو روڈ پر رکھ کر دھرنے دینے پڑیں گے؟ کیا ان کے مردہ ضمیر کو جگانے کیلئے کسی شہر میں 20 بندوں کا دھماکوں میں شہید ہونا کافی نہیں ہے؟

اس سے یہ بات واضح ہے کہ یہ سب اپنی اپنی جگہ پر بادشاہ سلامت اور فرعون بنے ہوئے ہیں۔ ان کو اپنے عوام کی تباہی و بربادی کی کوئی فکر نہیں ہے۔ سر ایڈورڈ کوک نے یہ قول 370 برس پہلے کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشروں کو قانون عزت دیتا ہے بادشاہ نہیں ۔ اس وقت برطانیہ کے عوام نے ظالمانہ بادشاہت سے نجات حاصل کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہم آج 370 کے بعد بھی اس دور میں جی رہے ہیں۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں