مطلبی دنیا کے منافق لوگ۔۔۔! (ساجد خان)

گزشتہ ہفتے فرانس میں ایک آٹھ سو سالہ قدیم چرچ میں آگ لگ گئی۔ آگ کیا لگی، یہ خبر پوری دنیا میں جنگل میں لگی آگ کی طرح پھیل گئی۔
عالمی میڈیا گریہ کرتا نظر آ رہا تھا گو کہ آگ پر جلد ہی قابو پا لیا گیا مگر چرچ کی عمارت کو کافی نقصان پہنچا۔ دنیا بھر کے رہنماؤں کے تعزیتی پیغامات پہنچنے لگے۔ ہر شخص افسردہ نظر آیا۔

یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ آگ ابھی بجھی نہیں تھی کہ فرانس کے ایک ارب پتی شہری نے اس قدیم عمارت کی تعمیر نو کے لئے ایک سو ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کر دیا۔

اس کے بعد دنیا کے مختلف ارب پتی افراد نے امداد کا اعلان کرنا شروع کر دیا اور یوں اڑتالیس گھنٹوں کے دوران ہی ایک ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا جا چکا تھا،یہ بات جہاں قابل تعریف ہے وہیں دوسرے زاویہ سے قابل افسوس بھی ہے۔

یوں تو دنیا کے مختلف ممالک میں جنگ اور قحط سالی کی وجہ سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں مگر آج تک ان کے لئے اس جذبے کے تحت امداد کا اعلان نہیں کیا گیا۔ آپ یمن کے حالات دیکھ لیں جہاں خانہ جنگی اور سعودی اتحاد کے محاصرے کی وجہ سے شدید قحط سالی ہے۔

ہزاروں بچے خوراک کی کمی اور بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں مرنے کے قریب ہیں مگر دنیا نے اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ لاکھوں فلسطینی اور شامی مختلف ممالک میں کیمپوں میں بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں مگر آج تک ان کے لئے اتنی امداد نہیں اکٹھی کی جا سکی۔

اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے لئے انسانیت کے بجائے عمارتیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اس پر ایک واقعہ یاد آ گیا کہ حضرت امام زین العابدین نے ایک شہر کی طرف سفر کیا،وہاں پہنچے تو اپنا تعارف کروایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نواسہ ہوں۔ آپ تقریر کر رہے تھے کہ اس دوران بتایا کہ میرے ہاتھ میں جو عصاء ہے،وہ نبی کریم کا ہے۔ یہ سننا تھا کہ سب لوگ عصاء کو چومنے کے لئے ٹوٹ پڑے اور ایک دوسرے کو دھکے دینے لگے۔ یہ دیکھ کر امام زین العابدین نے فرمایا کہ افسوس نبی کریم کا خون ان کے سامنے ہے مگر وہ اسے نظر انداز کر کے ایک لکڑی کو مقدس سمجھ کر زیارت کے لئے بے چین ہوئے جا رہے ہیں۔

بس یہی حالات آج بھی ہیں کہ ایک چرچ کے لئے چند گھنٹوں میں ایک ارب ڈالر اکٹھے ہو جاتے ہیں مگر انسانوں میں پھیلی غربت کو ختم کرنے کے لئے کوئی بھی توجہ نہیں دیتا حالانکہ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں غربت ختم کرنے کے لئے بیس سالوں میں صرف ایک سو پینتیس ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

یہ رقم بالکل بھی زیادہ نہیں ہے کیونکہ صرف پانچ بڑے ممالک کا سالانہ دفاعی بجٹ اس رقم سے کہیں زیادہ ہے یعنی دنیا بھر کی بھوک اور افلاس صرف پانچ بڑے ممالک اگر چاہیں تو صرف ایک سال میں ختم کر سکتے ہیں لیکن اس معاملے پر کوئی بھی ملک یا شخص اپنا پیسہ ضائع کرنا پسند نہیں کرتا۔

کیا دنیا کی نظر میں یہ لکڑی اور پتھر کی عمارتیں انسان کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہیں کہ ایک عمارت کے جلنے پر ایک ارب ڈالر اکٹھا ہو جاتا ہے،عالمی میڈیا نوحہ کناں نظر آتا ہے لیکن دنیا میں لاکھوں انسان بھوک اور پیاس کی وجہ سے سسک سسک کر مر رہے ہیں مگر نا ہی میڈیا کی نظر ان پر پڑتی ہے اور نا ہی کسی ارب پتی کو ہوش آتا ہے بلکہ الٹا ان سسکتے انسانوں کو مارنے کے لئے دنیا بخوشی اسلحہ بناتی اور فروخت کرتی نظر آتی ہے۔

آگر فرانس کے چرچ کی تعمیر نو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی محبت میں کی جا رہی ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو انسانیت سے زیادہ محبت تھی،انہوں نے اپنی ساری زندگی انسانیت کی خدمت میں گزار دی مگر آج ان کی تعلیمات کے برعکس کام کۓ جا رہے ہیں۔ نبی کریم تو رحمت العالمین بن کر آۓ مگر آج ان کے پیروکار ہی انسانیت کو تباہ کرنے کے لئے سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کر کے بم اکٹھے کر رہے ہیں مگر اس کا دس فیصد بھی انسانیت کی بقا کے لئے خرچ کرنے سے کتراتے ہیں۔

آج دنیا مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کرتی نظر آ رہی ہے مگر کسی نے بھی زمین پر زندگی کے آثار کو محفوظ کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ زمین پر انسان بھوک اور افلاس سے مر رہا مگر ہمیں چاند اور مریخ پر آثار زندگی ڈھونڈنے کی ضد ہے۔

آج انسان جتنی ترقی کرتا جا رہا ہے،انسانیت اتنی پستی کی طرف جا رہی ہے۔ حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں مگر انسان مہنگی ترین مساجد، چرچ اور مندر تعمیر کر کے اپنے اپنے خداؤں کو خوش کرنے کی کوشش میں مصروف ہے مگر کیا خدا اس بات سے خوش ہو گا کہ اربوں روپے سے مسجد تعمیر ہو مگر اس کی مخلوق بھوکی سوئے۔

انسان اپنی اقدار کھو چکا ہے جبکہ مسلمان اپنی تعلیمات بھول چکا ہے اور ہم نے اللہ کی مخلوق کو مرنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا ہے کیونکہ ہماری ترجیحات کچھ اور ہیں گویا ہم نے کبھی کسی کو جواب دہ ہونا ہی نہیں ہے۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں