سوات سے آکسفورڈ، ملالہ یوسفزئی کی کہانی

لندن (ویب ڈیسک) پاکستانی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے سوشل میڈیا کے مقبول ترین چیلنج ‘10 ایئر چیلینج‘ میں حصہ لیتے ہوئے اپنی 10 سالہ آپ بیتی بیان کردی۔

تفصیلات کے مطابق سوات کی گل مکئی پر 2009 میں اُس وقت دہشت گردوں نے حملہ کیا جب وہ اسکول سے واپس گھر جارہی تھیں البتہ اب ملالہ لندن کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں نہ صرف تعلیم حاصل کررہی ہیں بلکہ وہ لیکچرز بھی دیتی ہیں۔

پاکستان کی بیٹی نے #10YearChallenge کو دیکھتے ہوئے اپنا ایک بلاگ تحریر کیا جس میں انہوں نے اپنی آپ بیتی بیان کی، ملالہ نے اس تحریر کا آغاز سوات کے حالات سے کیا۔

ملالہ نے اپنے بلاگ کا لنگ شیئر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’جب میں نے 10 ایئر چیلنج دیکھا تو اپنے زندگی کے بارے میں سوچنا شروع کیا، اُس وقت میں عمر صرف 11 برس تھی مگر اب سب کچھ بہت بدل چکا ہے‘۔

بلاگ گل مکئی نے اس بلاگ میں 11 برس کی عمر سے اب تک کی آپ بیتی تحریر کرتے ہوئے جذبات کا اظہار کیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’گزشتہ ہفتے میں 10 ایئر چیلنج دیکھ کر بہت محظوظ ہوئی، چالیس لاکھ سے زائد صارفین نے اپنی تصاویر اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا جنہیں دیکھ کر میری بھی دس سالہ پرانی یادیں تازہ ہوگئیں جس وقت میں صرف 11 سال کی تھی‘۔

ملالہ نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ ’15 جنوری 2009 کو پوری وادی نے ریڈیو پر ایک خوفزدہ کر دینے والا اعلان سنا جس میں طالبان کے مقامی رہنما نے ہدایت کی کہ لڑکیوں کا اسکول جانا اسلام کے خلاف ہے لہذا اب کوئی لڑکی اسکول نہیں جائے گی‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’میں 11 برس کی عمر میں اپنے مستقبل اور آزادی کے حوالے سے بہت فکر مند تھی کیونکہ مجھے لکھنے، پڑھنے اور سیکھنے کا شوق تھا، اسی وجہ سے میں نے اور والد نے آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا کیونکہ ہم جانتے تھے کہ پابندی کے خلاف بولے بغیر تبدیلی ممکن نہیں ہے، میں نے اس دوران ڈائری لکھی، آج بھی ان تحریروں کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ میں لڑکیوں کی آواز سُن رہی ہوں، اُن کی یادیں، شبہات، امید کا مجھے ابھی بھی احساس ہے اور یہی سوچ مجھے پوری دنیا خصوصاً پناہ گزین لڑکیوں میں محسوس ہوئی‘ْ

14 جنوری 2009 کو میرے اسکول کا آخری روز تھا جبکہ آج 14 جنوری کو میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں میرے لیکچز کے دوسرے حصے کی شروعات ہوئی، مجھے اندازہ ہے کہ بہت دور آچکی ہوں اور اس بات کی بھی خوشی ہے کہ میں اپنی کہانی بیان کرنے کے قابل ہوں البتہ یہ احساس آج بھی ہے کہ لاکھوں لڑکیاں ان ہی حالات سے گزر رہی ہیں جو میں نے 10 برس پہلے دیکھے‘۔

ملالہ نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ ’جب میں 10 سال پرانی باتیں یاد کرتی ہوں تو بہت شکر ادا کرتی ہوں لیکن مجھے اسکول سے محروم لڑکیوں کو دیکھ کر غصہ بھی آتا ہے، میرا اُس وقت خون کھول جاتا ہے جب حکمران دیگر مسائل کے بارے میں تو سوچتے ہیں مگر 13 کروڑ بچیوں کی تعلیم کی انہیں فکر نہیں کیونکہ حکمرانوں کو معیشت، طاقت، تنازعات اور سیاست کی فکر ہے جبکہ وہ تعلیمی مسائل کو بھی حل کرسکتے ہیں‘۔

ملالہ نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ’مجھے یقین ہے کہ اگر آپ میری کہانی سے متاثر ہوئے تو میرے ساتھ مل کر لڑکیوں کی تعلیمی جنگ میں میرا ساتھ دیں گے اور اس کاررواں میں شامل ہوں گے‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں