امریکا نے ایران پر مزید معاشی پابندیاں عائد کر دیں

واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جانب سے جوہری معاہدے سے جزوی دستبرداری کے بعد ایران پر مزید پابندیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اسٹیل اور کان کنی کی صنعت پر پابندی عائد کردی۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر کی جانب سے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کو ایک برس مکمل ہونے پر ٹرمپ نے خطے میں جوہری صلاحیت کے حامل بمبار طیارے اور دیگر جہاز تعینات کیے ہیں اور ایران پر ’افسوسناک‘ حملوں کا الزام عائد کیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر سخت ترین اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں جس کے تحت ایران سے لوہا، اسٹیل، المونیم اور تانبا خریدنے یا تجارت کرنے والے کو بھی سزا کا سامنا ہے۔

اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے تمام ممالک پر ایران سے تیل خریدنے پر پابندی عائد کی تھی جو اس کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جبکہ اسٹیل اور کان کنی کا شعبہ ایران کی غیر ملکی ریونیو کا دوسرا بڑا ذریعہ ہیں اور ملکی برآمدات کا 10 فیصد حصہ ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ ایران اگر اپنے طریقے کو باقاعدہ تبدیل نہیں کرتا تو اسے مزید کارروائیوں کا سامنا ہوسکتا ہے‘۔

تاہم ٹرمپ جو کم جونگ ان کے ساتھ دو تاریخی سربراہی اجلاس سے قبل انتہائی سخت لہجے میں بات کرتے تھے، انہوں نے شمالی کوریا کے سربراہ سے براہ راست بات کرنے کا کہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’ میں کسی معاہدے کے لیے مستقبل میں ایران کے رہنماؤں سے ملنے کی توقع کرتا ہے اور خصوصا وہ ایران کو وہ مستقبل فراہم کرنے سے متعلق اقدامات کے لیے جن کی وہ اہلیت رکھتا ہے۔

گزشتہ روز فلوریڈا میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا تھا کہ انہیں امید ہےکہ شفاف معاہدہ کسی نقطے پر آکر کام کرے گا۔

امریکی صدر نے حامیوں کو بتایا کہ ہم کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہ رہے، ہم بس یہ نہیں چاہتے کہ ان کے پاس جوہری ہتھیار ہوں، یہی ہم چاہتے ہیں۔

دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بات ا امکان نہیں کہ ایرانی رہنما ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے جنہوں نے بارہا ان کے ملک کو دھمکایا ہے۔

دوسری جانب ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کا کہنا ہے کہ وہ خود کو یورنیم کی زائد اور بھاری پانی سے متعقلق متفق کی گئی شرائط کا پابند نہیں سمجھتی۔

کونسل نے کہا کہ 60 روز بعد وہ ان حدود کے مطابق عمل کرنا چھوڑ دے گا کہ ایران کس سطح تک یورینیم استعمال کرسکتا ہے اور ارک ہیوی واٹر ری ایکٹر میں کی گئی تبدیلیاں بھی ختم کردے گا جنہیں پلوٹونیم کی پیداوار روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جوہری معاہدے میں شامل دیگر 3 یورپی ممالک نے تجارتی طریقہ کار کے ذریعے اس معاہدے کو بچانے کی کوشش کی تھی لیکن ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ان کی کوشش کو مسترد کردیا تھا۔

یورپی قوتوں نے ایران کے بیان پر خطرات کا اظہار کیا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ جوہری معاہدے کو بچایا جاسکتا ہے۔

جرمن چانسلر کے ترجمان اسٹیفن سیبارٹ نے کہا کہ ’ ہم بطور یورپی، جرمن ہونے کے ناطے مکمل طور پر اپنا کردار ادا کریں گے اور ایران سے بھی مکمل عملدرآمد کی توقع کریں گے‘۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز تہران نے معاہدے کے فریقین ممالک برطانیہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی پرواضح کیا تھا کہ وہ ایران پر عائد امریکی پابندیوں کا حل تلاش کرے۔

خیال رہے کہ 5 مئی کو یورپی یونین نے امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری پروگرام سے منسلک دو ’خصوصی استثنیٰ‘ میں توسیع نہ دینے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

یورپی یونین کے ممالک فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے کہا تھا کہ ’ایران کے ساتھ تیل کے شعبے سے منسلک تجارتی استثنیٰ میں توسیع نہ دیے جانے پر افسوس اور امریکی فیصلے پر تحفظات ہیں۔’

واضح رہے کہ عالمی عدالت کی جانب سے امریکا کو ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا حکم سامنے آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے تہران کے ساتھ 1955 کا معاہدہ منسوخ کردیا تھا۔

ایران کے ساتھ معاہدہ سابق صدر بارک اوباما کے دور میں کیا گیا تھا تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد مئی 2018 میں خود کو اس ڈیل سے علیحدہ کرلیا تھا۔

امریکا کے اس فیصلے کے بعد بھی چین، فرانس، روس، برطانیہ اور جرمنی کے ایران کے ساتھ معاہدے متاثر نہیں ہوئے تھے۔

بعدازاں امریکی صدر نے گزشتہ برس اگست میں جوہری معاہدے سے دستبرداری کے 3 ماہ بعد خصوصی حکم جاری کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ معاشی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

نومبر 2018 میں ٹرمپ نے ایران پر مکمل اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں، امریکی پابندیوں کے دائرہ کار میں ایران کے توانائی، فنانشل اور جہاز رانی کے شعبہ جات شامل ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں