ایران کے جوہری معاہدے کیلئے حتمی لڑائی شروع

ایران نے سنہ 2015 میں چھ عالمی طاقتوں امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

امریکہ ایک برس پہلے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبردار ہو چکا ہے۔ جس کے بعد سے امریکہ اور ایران کے سفارتی تعلقات میں سرد مہری جاری ہے۔

امریکہ کے معاہدے سے علیحدہ ہونے کے باوجود ایران نے پانچ دوسرے ممالک کے ساتھ اس معاہدے کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے آئی اے ای اے کے مطابق ایران جوہری معاہدے کی پوری طرح پاسداری کر رہا ہے۔

جوناتھن مارکس جو کہ بی بی سی کے تـجزیہ نگار اور دفاعی و سفارتی امور کو دیکھتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ سال 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد ایرانی معیشت پر عائد بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کی گئی تھیں، جن سے تیل کی برآمدات، تجارت اور بینکنگ سیکٹر متاثر تھے۔ اس کے بدلے میں ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

لیکن ٹرمپ انتظامیہ کو ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اس کو برا معاہدہ گرادنتی ہے جبکہ معاہدے کے پانچ دیگر فریق، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی اس سے متفق نہیں ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ اب ایران پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ اس نے ایران پر کئی اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے ایران کے پاسداران انقلاب کو دہشتگرد گروپ قرار دے دیا ہے۔

حال ہی میں امریکہ نے ان ممالک پر اقتصادی پابندیوں کی چھوٹ کو بھی واپس لے لیا ہے جو ایران سے تیل خرید رہے ہیں۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت پر بے تحاشا بوجھ ہے۔

ایران نے اس دباؤ سے نکلنے کے لیے جوابی کارروائیاں شروع کی ہیں۔ ایران نے امریکہ کے یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے سے نکلنے کے ایک سال بعد اب اپنی شرائط کا اعلان کر دیا ہے۔

ایران کا کہنا ہے کہ اگر معاہدے کے باقی فریقین دو ماہ کے اندر معاہدہ میں طے کی گئی شرائط کو نافذ نہیں کریں گے تو وہ بھی معاہدے کی پاسداری ختم کرتے ہوئے یورینیم کو افزودہ کرنا شروع کردے گا۔ ایران کہتا ہے کہ اگر اس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا تو وہ بھی آزاد ہو گا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام پر عمل کرے۔

ایران اس تنازعے میں خود کو مظلوم کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اور اگر خطے میں ایران کے وسیع کردار اوراس کے میزائل پروگرام کو اس تنازعے سے علیحدہ کر کے دیکھیں، تو ایران کے موقف میں وزن ہے۔ خطے میں ایران کا کردار اور اس کا میزائل پروگرام اس معاہدے کا حصہ نہیں ہیں جو اس نے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ کیا تھا۔

ایران نے مجموعی طور پر اس معاہدے کی پاسداری کی ہے اور وہ امریکی پابندیاں جن کو اس معاہدے پرعمل درآمد کی صورت میں ختم کیا جانا مقصود تھا، ان کو دوبارہ نافذ کر دیا گیا ہے۔ ایرانی معیشت کو پابندیوں کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ اب تہران کہہ رہا ہے’بہت ہو گیا۔’

اب دباؤ یورپی طاقتوں، فرانس، برطانیہ اور جرمنی پر ہے، جنہوں نے اس معاہدے کو طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ایران ان یورپی ممالک سے کہہ رہا ہے کہ تم اپنا وعدہ وفا کرو۔

ان یورپی ممالک کو ایران پر بڑھتے معاشی دباؤ کو کم کرنے کے لیے کچھ کرنا ہو گا۔ یورپی ممالک کے لیے ایک خاص تنبیہ بھی ہے۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے منشیات کی سمگلنگ اور تارکین وطن کے یورپی ممالک میں پہنچنے کو روکنے میں اپنے اہم کردار کا ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی پابندیوں کا مطلب ہو گا کہ ایران ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا متحمل نہیں رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں