خیبر پختونخوا میں باپ کی بیٹی کیساتھ شادی عدالت نے باپ کو عبرتناک سزا دیدی

ہری پور (مانیٹرنگ ڈیسک) اسلامی مملکت میں ایسا نہیں ہو گا، پاکستان میں باپ کی بیٹی کیساتھ شادی، عدالت نے بدبخت باپ کو عبرتناک سزا دیدی، سوتیلی بیٹی سے شادی کرنے والے شخص کو 10 سال قید کی سزا، ملزم نے 40 سالہ ماں سے شادی کرنے کے کچھ عرصہ بعد اس کی 22 سالہ بیٹی سے نکاح کرلیا تھا۔

تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا کےضلع ہری پور میں سیشن عدالت نے سوتیلی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے والے شخص کو 10 سال قید با مشقت اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔ ملزم نے 40 سالہ ماں سے شادی کرنے کے کچھ عرصہ بعد اس کی 22 سالہ بیٹی سے نکاح کرلیا تھا۔ عدالت نے نکاح پر نکاح پڑھانے والے نکاح خواں اور نکاح رجسٹرار کو باعزت بری کردیا۔

قبل ازیں ضلعی انتظامیہ نے نکاح رجسٹرار کا لائسنس معطل کیا تھا۔ ضلع ہری پور کے تھانہ سرائے صالح کے محرر عادل خان نے صحافیوں کو بتایا کہ شہربانو نامی خاتون نے 22 اکتوبر 2017 کو مقدمہ درج کراتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے کچھ عرصہ قبل وارث شاہ نامی شخص سے دوسری شادی کی تھی اور میری پہلی شادی سے ایک 22 سال کی بیٹی ہے جس کا نام سمیرا ہے۔

وارث شاہ نے مجھے بے خبر رکھ کر میری بیٹی سمیرا سے بھی شادی کرلی ہے جبکہ وارث شاہ کی پہلے سے تیسری بیوی بھی موجود ہے۔

وارث شاہ ہری پور میں سرائے صالح کا رہائشی ہے اور ماں بیٹی سمیت اس کی کل تین بیویاں ہیں۔ پولیس نے ملزم وارث شاہ اور سوتیلی بیٹی کے خلاف نکاح کے اوپر نکاح کا مقدمہ درج کرلیا اور مقدمہ میں نکاح خوان اورنکاح رجسٹرار سمیت مجموعی طور پر 7 افراد کو نامزد کردیا۔

مگر وارث شاہ اور سمیرا کے علاوہ تمام ملزمان نے عدالت سے ضمانتیں حاصل کرلیں۔ اس دوران ضلعی انتظامیہ نے نکاح رجسٹرار کا لائسنس منسوخ کردیا۔ وارث شاہ اور سمیرا نے ضمانت حاصل کرنے کے لیے پشاور ہائیکورٹ کا رخ کیا جہاں سمیرا کو ضمانت مل گئی تاہم وارث شاہ کو ناکامی ہوئی جس کے بعد اس نے 5 دسمبر 2018 کو سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کردی اور 22 سالہ سمیرا کی حوالگی کی استدعا بھی کردی۔ سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی۔ اس موقع پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ مقدمہ سننا اور اس کی پیروی کرنا جج اور وکیل کی مجبوری ہے-

لیکن اس طرح کے مقدمات معاشرے پر کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتے۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ملزمہ سمیرا کے وکیل صدیق بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے۔ اس بارے میں وفاقی شرعی عدالت ہی فیصلہ دے سکتی ہے لیکن عدالت کے سامنے معاملہ سمیرا کی حوالگی کا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اس قسم کے واقعات نہ صرف شرمندگی کا باعث ہیں بلکہ یہ لمحہ فکریہ بھی ہے کہ ایک مرد ایک عورت سے شادی کرے اور بعد میں اس کی بیٹی سے بھی شادی کر لے۔ صدیق بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا کہ اگر سمیرا کو اس کی والدہ جو اب اس کی سوتن ہے، کے ساتھ بھیجتے ہیں تو لڑائی کا خطرہ ہے۔

اس لیے اگر عدالت مناسب سمجھے تو سمیرا کو اس کے سسرال والوں کے ساتھ بھیج دیا جائے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ دارالامان کا ماحول ایسا ہے کہ لڑکی کو وہاں پر نہیں بھیجا جا سکتا۔ عدالت نے ہری پور پولیس کے سربراہ کو حکم دیا کہ وہ سمیرا کی حفاظت کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں۔ بینچ میں موجود ججز نے مشاورت کے بعد سمیرا کو اس کے سسرال والوں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ عدالتی فیصلے پر شہر بانو نے کمرہ عدالت میں شور ڈالنا شروع کر دیا –

جس پر عدالتی حکم پر وہاں پر موجود پولیس اہلکاروں نے شہر بانو کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد جب سمیرا کمرہ عدالت سے باہر نکل رہی تھی تو ان کی والدہ شہر بانو ان سے الجھ پڑیں تاہم وہاں پر موجود پولیس اہلکاروں نے بیچ بچاؤ کروایا۔

اس دوران سیشن کورٹ میں ٹرائل چلتا رہا جس میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 25 جنوری 2019 کو سیسن جج نے ملزم وارث شاہ کو 10 سال قید بامشقت اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنادی جبکہ سمیرا سمیت دیگر تمام ملزمان کو بری کردیا ہے۔ مجرم کی جانب سے جرمانہ کی عدم ادائیگی پر مزید 6 ماہ قید میں گزارنے پڑیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں