سعودی عرب بیلسٹک میزائل تیار کر رہا ہے، امریکی میڈیا کا انکشاف

واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکا کے جوہری ماہرین نے سیٹیلائٹ شواہد کی بنیاد پر شبہ ظاہر کیا ہے کہ سعودی عرب بیلسٹک میزائل کی تیاری میں مصروف ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ اگر ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری جاری رکھتا ہے تو وہ بھی ایسے ہتھیاروں کی تیاری شروع کرسکتے ہیں، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب جوہری پروگرام شروع کر سکتا ہے۔

تاہم سعودی حکام اور واشنگٹن میں قائم سعودی سفارت خانے کے حکام نے اس حوالے سے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے منصوبے کی وجہ سے سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات کشیدہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے جبکہ یمن میں سعودی قیادت میں جاری جنگ اور سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر مونٹری میں واقع مِڈل بری انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے میزائل سازی کے ماہر جیفری لوئس کا کہنا تھا کہ میزائل کی تیاری میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں دلچسپی کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے.

انہوں نے سیٹیلائٹ تصاویر کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ ’ میں تھوڑا پریشان ہوں کہ ہم سعودی عرب کے عزائم کا کم اندازہ لگا رہے ہیں‘۔

واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے جاری کی گئیں تصاویر میں ریاض سے 230 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قصبے الدوادمی میں قائم فوجی اڈے کو دکھایا گیا ہے۔

اس سے قبل 2013 میں ہفتہ وار جریدے جینز ڈیفنس نے الدوادمی کے خصوصی فوجی مرکز کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں اسرائیل اور ایران پر میزائل داغنے کے لیے 2 لانچنگ پیڈز دکھائی دیے تھے جو سعودی عرب نے چین سے خریدے تھے۔

واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے جاری کی گئیں نومبر میں لی گئی سیٹیلائٹ تصاویر میں بیلسٹک میزائل کی تیاری کا ایک سلسلہ نظر آرہا ہے۔

تصاویر میں فوجی اڈے کے کونے میں راکٹ انجن ٹیسٹ اسٹینڈ دیکھا جاسکتا ہے جس میں ایک راکٹ آزمائشی تجربہ کیے جانے کی پوزیشن میں موجود ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ میزائل کی آزمائش ایسے ممالک میں کی جاتی ہے جو میزائل کی تیاری پر کام کررہے ہوں۔

واشنگٹن میں انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ برائے اسٹریٹیجک اسٹڈیز میں دفاعی میزائل سے وابستہ مائیکل الیمین نے بھی سیٹیلائٹ کی تصاویر کا مطالعہ کیا اور کہا کہ یہ ایک بیلسٹک میزائل کی تیاری کا منصوبہ دکھائی دے رہے ہیں۔

اس حوالے سے اہم سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کو اس حوالے سے تکنیکی سمجھ بوجھ کس ملک سے حاصل ہوئی۔

جیفری لوئس کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے تیار کردہ میرائل کا ڈیزائن چین کے جیسا ہے تاہم یہ جسامت میں چھوٹا ہے۔

چین کی جانب سے سعودی عرب کو فوجی ٹیکنالوجی کی فراہمی کوئی حیران کن بات نہیں، اس سے قبل چین، سعودی عرب اور دیگر مشرقی وسطیٰ کے ممالک کو ڈرون فراہم کرتا رہا ہے، یہاں تک کہ امریکا نے اپنےاتحادیوں کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے بڑھتے ہوئے خطرے کی وجہ سے فروخت روک دی ہے۔

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چنینگ نے بتایا کہ ’ میں نے ایسا کبھی نہیں سنا کہ چین سعودی عرب کو میزائل کا مرکز تیار کرنے میں مدد دے رہا ہے‘۔

سعودی عرب، اسرائیل اور امریکا کے ہمراہ ایک عرصے سے ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو خطے کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کرتا رہا ہے۔

عالمی طاقتوں سے 2015 کے جوہری ہتھیاروں کے معاہدے کے تحت ایران اپنا جوہری پروگرام محدود کرنےکا پابند ہے

اس حوالے سے ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری منصوبہ پرامن ہے تاہم مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ ایران سویلین پروگرام کی آڑ میں جوہری ہتھیار تیار کررہا ہے جبکہ ایران ان الزامات کو یکسر مسترد کرتا ہے۔

ایران بیلسٹک میزائل تیار کررہا ہے کیونکہ اس کی فضائی قوت 1979 سے قبل تیار کیے گئے جنگی طیاروں پر مبنی ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب کے پاس جدید ایف 15، ٹائیفونز اور ٹورنیڈوز موجود ہیں جس پر یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ سعودی عرب بیلسٹک میزائل کیوں تیار کررہا ہے۔

دفاعی ماہر ایل مین کا کہنا تھا کہ سعودی پائلٹس کے پاس مہارت ہونے کے باوجود سعودی عرب کو ساز و سامان کے لیے امریکا کی ضرورت ہے۔

ایل مین نے کہا کہ ’سعودی عرب ، امریکا کے تعاون پر انحصار کرتا ہے،اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ امریکی فورسز ایران پر کیے جانے والے حملوں میں سعودی عرب کی مدد کریں گیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ کچھ خدشات کی وجہ سے بیلسٹک میزائل کی تیاری ایک مناسب وجہ ہے،سعودی عرب پر یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے بیلسٹک میزائل کے حملےبھی کیے جاتے رہے ہیں جن میں سے کچھ ریاض بھی پہنچے ہیں.

اس حوالے سے مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران نے حوثی باغیوں کو میزائل فراہم کیے تھے تاہم تہران اور باغیوں کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں