پاکستان کی کشمیر پالیسی کا فیصلہ کن وقت آگیا ہے: وزیراعظم عمران خان

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کشمیر پالیسی کا فیصلہ کن وقت آگیا ہے۔

قوم سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کشمیر پالیسی کا فیصلہ کن وقت آگیا ہے، ہماری پہلی کوشش تھی ملک میں امن پیدا کریں اور تمام ممالک سے دوستی کریں، بی جے پی نے انتخابات میں پاکستان مخالف مہم چلائی، بھارت کو مسئلہ کشمیر بات چیت سے حل کرنے کی آفر کی تاہم جب بھی ہم بھارت سے بات کرتے تو وہ کوئی اور بات شروع کر دیتے جب کہ اسی دوران پلواما ہو گیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہندوستان نے پلواما واقعے کا جائزہ لینے کے بجائے ہم پر انگلی اٹھائی، ہم نے بھارت کو کہا ثبوت ہے تو ہم ایکشن لینے کے لئے تیار ہیں، الیکشن کے بعد انہوں نے پوری کوشش کی پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ کیا جائے جس کے لیے انہوں نے دنیا بھر میں لابنگ کی، بھارت کی پالیسی ایک نظریے آر ایس ایس پر قائم ہے جس میں مسلمانوں کیخلاف نفرت ہے، اسی نظریے نے گاندھی کو قتل، بابری مسجد کو شہید اور گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا، یہی نسل پرستی کا نظریہ آج ہندوستان پر حکومت کر رہا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ مودی نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت ختم کرکے بہت بڑی تاریخی غلطی کی، اب کشمیریوں کے لیے آزادی کا تاریخی موقع ہے، بھارت نے پانچ اگست کو پیغام دیا کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے اور سیکولرازم کو ختم کر دیا، انہوں نے اپنے آئین اور سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی، تکبرکی وجہ سے مودی نے یہ کام کیا، انہوں نے سوچا کشمیریوں پر اتنا تشدد کریں گے کہ وہ خاموش ہو جائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی فوج نے آزاد کشمیر میں آزاد کشمیر میں آپریشن کرنا تھا، ہمیں اطلاع مل چکی تھی اور ہماری فوج پوری طرح تیار تھی، ہم نے اس ایشو پر فوری طور پر دنیا سے بات کی، میں دنیا میں اب کشمیر کا سفیر بنوں گا اور اقوام متحدہ میں 27 ستمبر کو اس معاملے کو اٹھاؤں گا، کشمیر کے ساتھ دنیا کھڑی ہو یا نہ کھڑی ہو لیکن پاکستانی قوم کھڑی ہوگی، قوم کو بالکل مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، پوری دنیا کے میڈیا کو بتاؤں گا کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے، ہر ہفتے ہم ایک پروگرام کریں گے جس میں 12 بجے سے لے کر ساڑھے 12 بجے تک آدھے گھنٹے کے لیے پوری قوم شریک ہوگی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ آج مسلمان ممالک ہمارے ساتھ نہیں تو کل ہمارے ساتھ ہوں گے، بوسنیا میں قتل عام پر بھی مسلمان ممالک خاموش تھے، میڈیا نے بوسنیا کی آواز اٹھائی تو مسلمان ممالک بھی آگے آگئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں