مجلسِ شامِ غریباں!

تحریر: علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ

وہ قافلہ جو مدینے سے آیا تھا، وہ آج لٹ گیا۔ اس وقت میں آپ سب حضرات کی طرف سے اُن کی خدمت میں سلام پیش کرتے ہیں۔

اے کربلا کے پیاسے! ہم آپ کو سلام کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ بیبیاں جلے ہوئے خیموں کے پاس خاک پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ نہ کسی کا بھائی رہ گیا ہے، نہ کسی کا بیٹا رہ گیا ہے اور نہ ہی کوئی اور رشتہ دار رہ گیا ہے۔ جنابِ زینبؑ ہی ہیں جو سب بیبیوں کو جمع کئے ہوئے بیٹھی ہیں
اس سے پہلے حالت یہ تھی کہ بعد از شہادت جب خیموں میں آگ لگادی گئی تو بیبیاں اِدھر اُدھر منتشر پھر رہی تھیں اور کچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ کیا کیا جائے۔ ایک بچی کی یہ حالت تھی کہ اُس کے کپڑے جل رہے تھے اور وہ یہ نہیں سمجھتی تھی کہ کس طرح آگ بجھائی جائے۔ کس بی بی کی رِدا میں آگ لگی ہوئی تھی اور اُسے اس کا علم نہ تھا۔
عزادارانِ اہلِ بیت! ہائے صبح سے عصر تک یہ قافلہ سارا ہی لٹ گیا۔ آج صبح کے وقت جب تیر آئے ہیں پہلی مرتبہ تو بیبیاں گھبرا کر خیموں کے دروازوں پر آگئی تھیں اور انہوں نے آواز دی تھی: اے ایمان والو! ہمارے سروں سے چادریں نہ اُترنے دینا۔ تو حالت یہ ہوئی تھی اصحاب کہ تلواروں کی میانوں کو توڑ کر پھینک دیا تھا اور خیموں کے دروازوں پر آکر سب نے یک زبان ہوکر کہا تھا: شہزادیو! جب تک ہم موجود ہیں، تمہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ ارے اس وقت وہ بچانے والے، وہ حفاظت کرنے والے، ان میں سے ایک نہیں۔ گلے کٹائے ہوئے میدان میں پڑے ہوئے ہیں۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی یہ حالت ہے کہ ضعف کی وجہ سے اُٹھنا تو درکنار، بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ اگر جنابِ زینبؑ نہ نکالتیں تو شاید خیمے ہی میں رہ جاتے۔

عزادارو! اتنی بیکسی تھی کہ کوئی اہلِ بیت سے یہ کہنے والا نہ تھا کہ حسین مارے گئے۔ یہ گھوڑا آیا ہے اپنی پیشانی پر حسینؑ کا خون لگائے ہوئے اور خیمے کے دروازے پر آکر اُس نے فریاد کی سی آواز بلند کی۔ پہلے تو بیبیاں سمجھیں کہ شاید حسینؑ آئے ہیں۔ لیکن جب زین کو خالی دیکھا تو چاروں طرف اس ذوالجناح کے کھڑی ہوگئیں اور فریادیں شروع کیں۔ ذوالجناح! ارے فرزند ِ رسولؐ کہاں رہ گئے؟ جنابِ سکینہؑ نے ذوالجناح سے چمٹ کر فریاد کی۔ میرے بابا کے ذوالجناح! کیا میں یتیم ہوگئی؟ کیا میرے بابا مارے گئے؟

آج مسافروں کی شام یعنی شامِ غریباں کربلا والوں کی کیسے گزری؟ اس کے متعلق چند فقرے عرض کرنے ہیں۔ آج بعد از عصر جب امام حسینؑ شہید کردئیے گئے تو اس کے بعد ہوا یہ کہ خیموں میں آگ لگادی گئی۔ جنابِ زینب نے امام زین العابدین سے جاکرکہا: بیٹا! اب تو خیمے جلنے لگے۔ آپ نے حکم دیا کہ پھوپھی جان! سب بیبیوں کو لے کر خیموں سے باہر نکل جائیں۔ ذرا آپ اندازہ لگائیے کہ یہ وقت بھی ایسا ہے کہ امامِ وقت کے حکم کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔

جنابِ امام زین العابدین علیہ السلام نے یہ جب یہ فرمایا تو جنابِ زینبؑ آئیں اور کہا کہ بیبیو! نکل جاؤ۔ بیبیاں نکلیں۔ جنابِ زینبؑ بچوں کو لے کر باہر نکلیں، بچوں کو بٹھایا۔ پھر آئیں خیمے میں، پھر اور بچوں کو لے گئیں۔ اس کے بعد خیال آیا کہ زین العابدینؑ تو اُٹھ بھی نہیں سکتے۔ وہ کیسے باہر آئے ہوں گے مگر حالت یہ تھی کہ دھوئیں کی وجہ سے اور آگ کی وجہ سے کچھ ایسی گھبراہٹ طاری تھی کہ بھول گئیں کہ میرا بیمار بھتیجا کس خیمے میں ہے۔ ایک خیمے میں شعلے بھڑک رہے تھے۔ ایک مرتبہ اس میں چلی گئیں۔ سید ِسجاد نہ ملے۔ ہائے فاطمہ زہرا کی بیٹیاں! اور آج اُن پر یہ مصیبت۔ ایک خیمے میں تلاش کے بعد دوسرے میں داخل ہوئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے نکلیں۔ مگر اتنی پریشان تھیں کہ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ دھوئیں کی وجہ سے دکھلائی نہیں دیتا تھا۔ اس کے بعد کچھ سوچا اور ایک تیسرے خیمے میں، جس میں شعلے بھڑک رہے تھے، اس میں چلی گئیں۔ وہاں سے جو باہر آئیں تو، کتب میں جو لکھا ہے کہ کسی نے پوچھا کہ بی بی!آپ کیوں جاتی ہیں بار بار خیمے میں؟ کیا کوئی چیز رہ گئی ہے؟ فرماتی ہیں : چیز تو کوئی نہیں، میرا بیمار بیٹا نہیں مل رہا۔

اس کے بعد ایک خیمے میں گئیں تو امام زین العابدین علیہ السلام کو سینے سے لگائے ہوئے نکلیں اور باہر لاکر بھتیجے کو زمین پر لٹا دیا اور بازو ہلاکر فرمایا: بیٹا! خیمے جل گئے، ہمارے سروں سے چادریں چھن گئیں۔

اس وقت حالت یہ ہے کہ یہی وقت ہے، آپ ذرا کربلا کی زمین کا تصور کیجئے۔ خیمے جل چکے ہیں۔ حسینؑ کی لاش کہاں عباسؑ کی لاش کہاں اور عزیزوں کی لاشیں کہاں؟ بیبیاں سہمی ہوئی بیٹھی ہیں۔ اس وقت اُن کی گودوں میں جو بچے ہیں، وہ روتے ہیں، اتنے سہم گئے ہیں، اتنے گھبرا گئے ہیں کہ ان کو اس کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیا ہوگا! جنابِ زینب سلام اللہ علیہا کبھی بیمار کے پاس آتیں، بیٹا! ہم تباہ ہوگئے، تمہاری طبیعت کیسی ہے؟ تمہارا مزاج کیسا ہے؟ اگر سر میں درد ہو تو میں دبا دوں؟ کبھی سکینہ کے پاس جاتی ہیں، گود میں اُٹھالیتی ہیں، اِدھر اُدھر پھرتی ہیں۔ سکینہ کہتی ہیں: پھوپھی جان! میرے بابا کہاں ہیں؟ مجھے میرے بابا کے پاس پہنچا دیں۔

اس کے بعد بیبیوں کے پاس جاتی ہیں، اُن کو سمجھاتی ہیں۔ اُن کو تسلی دیتی ہیں۔ فرماتی ہیں: بیبیو! تمہارا ہم پر بڑا احسان ہے۔ تم ہماری وجہ سے بڑی مصیبت میں گرفتار ہوگئیں۔ وہ بیبیاں کہتی ہیں: شہزادی! یہ نہ کہئے، ہم تو سرخرو ہو گئے کہ ہمارے عزیز آپ کے کام آگئے۔ اس کے بعد جنابِ فضہ سے فرمایا:

ذرا دیکھ لو کہ بچے تو پورے ہیں؟ جب یہ شمار کرنے لگیں تو پتہ چلا کہ دو بچے ان میں نہیں ہیں۔ اب بتلائیے، اندھیری رات ہے۔ ستارے بھی شرم کی وجہ سے منہ چھپائے ہوئے ہیں۔ فاطمہ زہرا کی بیٹی کیا کرے؟ آخر جنابِ فضہ سے کہا کہ فضہ! تم ان بچوں کا ذرا دھیان کرو اور میں اُن بچوں کی تلاش میں جاتی ہوں۔ جنابِ اُمّ کلثوم کو ساتھ لیا۔ ایک طرف چل دیں۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ایک شخص ملا۔ اس سے کہا کہ بھائی! تو نے کچھ بچے تو نہیں دیکھے؟ اُس نے کہا کہ تھوڑی دیر ہوئی کہ کچھ رونے کی آواز آرہی تھی، پتہ نہیں کہ وہ اب کہاں ہیں؟

جس طرف اُس نے کہا تھا، اُس طرف چلیں۔ دیکھا کہ ایک مقام پر دونوں بچے ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے زمین پر پڑے ہوئے ہیں۔ جنابِ زینب نے کہا کہ بہن اُمّ کلثوم! بچے تو مل گئے، ذرا آہستہ چلنا، ایسا نہ ہو کہ وہ بیدار ہوجائیں اور گھبرا جائیں کیونکہ انہوں نے یہ واقعات جو دیکھے ہیں تو اُن کے خیالات میں یہی چیز ہوگی کہ دشمن پکڑنے آئے ہیں۔ لہٰذا یہ آہستہ آہستہ گئیں، جب اُن کے قریب پہنچیں تو اُن کے پاس بیٹھ گئیں۔ ہاتھ پکڑ کر جو ہلایا تو ہاتھ اُن کے سرد تھے۔ پیشانی پر ہاتھ رکھا تو پیشانی ٹھنڈی تھی۔ ایک مرتبہ ہلایا، فریاد کی۔ کلثوم ! ارے یہ تو دونوں سدھار گئے۔ میں اپنے بھائی کو کیا جواب دوں گی؟ پروردگارِ عالم آپ کو جزائے خیر دے۔ اس رات کے کئی واقعات ہیں۔ صرف ایک واقعہ اور عرض کرکے ختم کردوں گا کیونکہ شامِ غریباں کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے دو آنسو بہہ جائیں، آپ کو اُن کی مصیبت کا کچھ ہلکا سا تصور ہوجائے۔

حقیقت یہ ہے کہ شب ِ عاشور آج کی رات کے مقابلہ میں بڑی اچھی رات تھی۔ سب کے سب موجود تھے۔ پانی نہ تھا مگر بیبیوں کو یہ اطمینان تو تھا کہ ہماری حفاظت ہے۔ مگر آج کی شب کا ذرا خود تصور فرمائیں ! جس کا جوان بیٹا، تمہیں پتہ ہے کہ تمہاری ماں کا کیا حال ہے، جس کا بھائی مرگیا، اُس کا کیا حال ہوگا؟

امام حسینؑ کی لاش اس جگہ پڑی ہے جہاں آپ شہید ہوئے۔ ہائے حسینؑ! کس زبان سے عرض کروں؟ ایک ملعون آیا۔ اس کو یہ خیال ہوا کہ حسینؑ کی انگلی میں ایک انگوٹھی تھی جس کا نگینہ بڑا اچھا تھا۔ عزادارانِ حسین! میں کس زبان سے بیان کروں؟ وہ آیا تو اُس نے دیکھا کہ انگوٹھی موجود ہے اور لباس لٹ چکا، عمامہ کوئی لے گیا۔ ہائے حسین! تیری مظلومی پر عزادار قربان۔ اس ملعون نے یہ چاہا کہ وہ انگوٹھی اُتار لے۔ مگر معلوم نہیں اُنگلی پر ورم آگیا تھا یا خون جم گیا تھا۔ وہ نہ اُتار سکا تو اُس ملعون نے کیا کیا؟ اِدھر اُدھر زمین پر ڈھونڈنے لگا۔ ایک تلوار کا ٹکڑا اس کے ہاتھ آگیا۔ آپ خود سمجھ لیجئے کہ کیا قیامت کی گھڑی تھی۔ یہ انگوٹھی لے کر چلا ہی تھا کہ ایک مرتبہ زمین ہلی، یہ گھبرا کر ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گیا۔ اس نے دیکھا کہ آسمان سے دو عماریاں اُتریں۔ ایک عماری میں سے ایک بزرگ سربرہنہ نکلے، گردن جھکائی ہوئی۔ ایک مرتبہ وہ حسینؑ کے قریب بیٹھ گئے اور آواز دی: وَا حسینا! سمجھے آپ یہ کون تھے؟ یہ حسین کے نانا حضرت محمد مصطفےٰؐ۔ دوسرے بزرگ نکلے، وہ امام حسینؑ کے بابا حضرت علی مرتضیٰؑ ، تیسرے بزرگ نکلے، وہ حسینؑ کے بھائی حسن مجتبیٰؑ! دوسری عماری اُتری، اس میں سے ایک بی بی نکلیں سر پیٹتی ہوئی، منہ پر طمانچے مارتی ہوئی۔ حسینؑ کے کٹے ہوئے گلے کے پاس بیٹھ گئی اور اس کے بعد بین کرتی ہیں: بابا! ہائے فاطمہؑ کا دل۔ بابا! میرا حسینؑ یہی ہے کہ سر سے پاؤں تک زخمی ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا: ہاں بیٹی! یہی ہے۔ تو ایک مرتبہ فاطمہ نے بے چین ہوکر بازو پر ہاتھ رکھا اور فریاد کرنے لگیں:

حسین! ارے تجھے مار ڈالا، تجھے پانی بھی نہ دیا۔ بیٹا! یہ بھی خیال نہ کیا کہ میں نے چکیاں پیس پیس کر پالا تھا۔

اک مرتبہ دل سے محبت کا جوش اُٹھا تو عرض کرتی ہیں: بابا! آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے منہ پر بیٹے کا خون مل لوں؟ رسول اللہ نے فرمایا: بیٹی! تم بھی مل لو اور میں بھی ملوں گا اور قیامت کے دن خدا کے سامنے اس طرح پیش ہوں گے۔

کربلا کے پیاسے! ارے کربلا کے شہید، تیرے رونے والے جمع ہوئے ہیں اور اب یہاں سے اُٹھنے والے ہیں، تجھے سلام کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں