ڈی آئی خان (سید توقیر زیدی) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے بم ناکارہ کرنے والے ادارے بم ڈسپوزل سکواڈ پر بنائی گئی دستاویزی فلم “آرمڈ ود فیتھ” کو ایمی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
فلم ساز اسد فاروقی کی دستاویزی فلم “آرمڈ ود فیتھ” کو حکومت اور سیاست کی کیٹیگری میں ایوارڈ دیا گیا ہے۔ اس دستاویزی فلم میں خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے بم ڈسپوزل سکواڈ کے انچارج عنایت اللہ ٹائیگر کو فلمایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبر پختونخوا میں پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکار پیش پیش رہے۔ جن میں متعدد ایسے بہادر اہلکار اور افسران سامنے آئے جو اپنی قیمتی جانوں کی پرواہ کیے بغیر دشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف سینہ تان کر کھڑے رہے۔ ان میں بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکاروں کی قربانیاں بھی نمایاں ہیں۔
خیبرپختونخواہ پولیس کے بم ڈسپوزل سکواڈ کے ایسے ہی بہادر اہلکاروں میں ڈیرہ اسماعیل خان کے رہائشی عنایت اللہ ٹائیگر کا نام سرفہرست ہے۔ عنایت اللہ ٹائیگر نے لاتعداد بم اور بارودی سرنگیں ناکارہ بنائی ہیں۔ عنایت اللہ ٹائیگر کم از کم 6 مرتبہ خود کش دھماکوں اور بارودی مواد ناکارہ کرتے ہوئے دھماکوں کی زد میں آ کر شدید زخمی ہو چکے ہیں۔ ایک دھماکے میں ان کی بائیں ٹانگ ضائع ہو گئی تھی جبکہ ایک آئی ای ڈی کو ناکارہ کرتے ہوئے دھماکہ ہوا جس میں ان کا ایک ہاتھ زخمی ہو گیا تھا۔
اسی طرح ایک خود کش دھماکے میں ان کے ساتھی ہلاک ہو گئے تھے جبکہ عنایت اللہ کے بائیں کندھے پر چھرے لگے تھے جبکہ ایک اور حادثے میں ان کا ہاتھ کٹ گیا تھا۔ عنایت اللہ ٹائیگر 24 گھنٹے وردی میں رہتے ہیں بقول اُن کے وہ وردی میں وہ سکون محسوس کرتے ہیں اور صرف نماز کے لیے شلوار قمیض پہنتے ہیں
عنایت اللہ ٹائیگر کا کہنا ہے کہ وہ جب سے پولیس میں بھرتی ہوِئے ہیں تو کبھی کبھار پورا سال گزر جاتا ہے اور وہ اپنے گھر نہیں جا پاتے۔ ان کے مطابق وہ ڈیوٹی سر انجام دینے میں سکون محسوس کرتے ہیں تو جب ان کی ایک ڈیوٹی کا وقت ختم ہوتا تھا تو وہ دوسری ڈیوٹی کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیتے تھے۔
عنایت اللہ ٹائیگر کا گھر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہے اور دفتر بھی شہر میں ہی ہے لیکن وہ اپنے گھر نہیں جا پاتے ہیں جس کی وجہ ان کی جان کو لاحق خطرات ہیں۔ مہینے میں ایک یا دو دن کے لیے گھر جاتے ہیں اور اس دوران بھی وہ آن کال رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ دن میں تین مرتبہ گھر فون کرتے اور بچوں سے بات کرتے ہیں اور رات کو کام سے فارغ ہوتے ہیں تو اپنی اہلیہ سے بات کرتے ہیں۔
عنایت اللہ ٹائیگر کی نجی زندگی صرف اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ منسلک ہے جو ان کے ساتھ پولیس کے محکمے میں کام کرتے ہیں اور انہی کے ساتھ دفتر میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ عنایت اللہ ٹائیگر کی رہائش دفتر کے ایک کمرے میں ہے جہاں ان کی ضروریات کا سامان موجود ہے جبکہ ان مصنوعی ٹانگ اور یونیفارم نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کے کمرے کے ساتھ گودام ہے جس میں بم ڈسپوزل یونٹ کا سامان اور جو مواد انھوں نے ناکارہ کیا ہے، اس کی باقیات رکھی گئی ہیں۔ ان کے دفتر کے سامنے شہدا کی یادگار ہے جہاں چھوٹا سا ایک باغ ہے جس کی دیکھ بھال بھی عنایت اللہ خود کرتے ہیں۔ عنایت اس چمن میں بیٹھ کر اپنے ان دوستوں کو یاد کرتے ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے اور دوران ڈیوٹی جان گنوا بیٹھے۔
انہوں نے اپنے ساتھیوں بتاتے ہوئے کہا کہ بعض دوستوں نے کم وقت میں بہت زیادہ کام کیا ہے جن میں پشاور کے بم ڈسپوزل یونٹ کے حکم خان شامل ہیں جنھوں نے 56 دیسی ساختہ بم ناکارہ کیے تھے لیکن انھیں زندگی نے مزید مہلت نہیں دی۔
انہوں نے کہا کہ وہ چھ دھماکوں اور حملوں میں زخمی ہوئے اور اس دوران ان کی جان جا سکتی تھی لیکن شاید اللہ کو اب تک ایسا منظور نہیں تھا۔