یمن: حوثی ملشیا نے نجران میں سعودی اتحاد کے 500 فوجیوں کو ہلاک کردیا، عالمی میڈیا

صنعاء + ریاض + واشنگٹن (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) یمن میں سرگرم حوثی ملیشیا نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے سعودی سرحد کے قریب حملہ کر کے اس کے 500 فوجیوں کو ہلاک اور ہزاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ سعودی ولی عہد نے کہا ہے کہ اگر ایران حوثی ملیشیا کے لیے اپنی سپورٹ کا سلسلہ روک دے تو یمن میں سیاسی حل آسان ترین ہو جائے گا۔

الجزیرہ ٹی وی کے مطابق حوثی ملیشیا کے ترجمان یحیی سریع نے آپریشن ” نصر من اللہ ” کو آرامکو آپریشن کے برابر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس آپریشن میں 500 سے زائد سعودی فوجیوں کو ہلاک اور زخمی کردیا گیا جبکہ سینکڑوں فوجیوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے جن میں غیر ملکی فوجی بھی شامل ہیں۔ تاہم ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ نصرمن اللہ آپریشن میں یمنی ڈرونز، میزائلوں اور تمام فوجی یونٹوں نے حصہ لیا اور اس آپریشن میں 350 کلو میٹر مربع علاقہ آزاد کرالیا گیا۔

حوثی ملیشیا کے فوجی ترجمان کی طرف جاری کی جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس تنظیم نے دشمن کی فوج کے ‘ہزاروں‘ اہلکار اور سینکڑوں گاڑیوں کو قبضے میں لیا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ یمن پر مسلط کردہ جنگ میں یمن کا یہ سب سے بڑا دفاعی فوجی آپریشن تھا۔ جس میں سعودی عرب کے 500 فوجیوں کو ہلاک اور زخمی کردیا گیا اس آپریشن کا آغاز 25 اگست کو کیا گیا۔ سعودی عرب کے جنگی طیاروں نے اپنے فراریا تسلیم ہونے والے فوجیوں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں 200 سے زائد سعودی فوجی مارے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ ​​سعودی تیل کی تنصیبات پر حملوں کی ذمہ داری بھی حوثی ملیشیا نے قبول کی تھی۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سعودی عرب کے 5000 فوجیوں ميں سے 2000 سے زائد فوجی گرفتار 500 سے زائد فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں باقی ماندہ فوجی فرار ہوتے ہوئے سعودی عرب کی بمباری میں ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یمنی حوثی باغیوں کی طرف سعودی عرب کی شمالی سرحد کے قریب نجران کے علاقے میں حملہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ تاہم سعودی عرب کی طرف سے اب تک نہ تو حوثی باغیوں کے حملے کی تصدیق کی گئی ہے اور نہ ہی ان کے اس دعوے کی کہ انہوں نے متعدد سعودی فوجی افسران کو پکڑ لیا ہے۔

روئٹرز کی طرف سے اس حملے کے بارے میں تصدیق کے لیے جب سعودی سربراہی میں قائم فوجی اتحاد کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو وہاں سے فوری طور پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ سعودی سربراہی میں قائم یہ فوجی اتحاد یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سرگرم عمل ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق یمنی حوثی نے ایک ویڈیو فوٹیج جاری کی ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد کے قریب سعودی افواج پر ایک بڑا حملہ دکھایا گیا ہے۔

حوثی باغیوں کے ترجمان نے جمعرات کو دعویٰ کیا تھا کہ تین سعودی فوجی دستوں نے سعودی قصبے نجران کے قریب ہتھیار ڈالے تھے۔

ویڈیو فلم میں بکتر بند گاڑیوں پر حملہ دکھایا گیا ہے تاہم حوثی دعوے میں بڑی فوجی کامیابی کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

حوثی ترجمان یحٰیی سریع نے جمعرات کو الزام عائد کیا تھا کہ سعودی افواج کو شدید ’ جانی و مالی نقصان پہنچا‘ جس میں اس کے ’ہزاروں‘ فوجی شامل تھے۔

لیکن اتوار کو نشر کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حوثی باغی بظاہر گاڑیوں پر فائرنگ کر رہے ہیں۔

اس کے بعد دکھائے جانے والے مناظر میں جلی ہوئی گاڑیوں کو دیکھا جا سکتا ہے جبکہ میدان میں پکڑا گیا اسلحہ بھی رکھا ہے۔ اس ویڈیو میں چند افراد کا ایک گروہ بھی دیکھا جا سکتا ہے تاہم وہ فوجی وردیوں میں ملبوس نہیں ہیں۔

اتوار کو امریکی چینل CBS کے پروگرام “60 Minutes” میں خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے سعودی ولی عہد نے کہا کہ آرامکو حملہ ایک احمقانہ عمل ہے کیوں کہ اس میں عالمی رسد کے 5% حصے کو نشانہ بنایا گیا۔

بن سلمان نے اس امید کا اظہار کیا کہ ایران کے خلاف عسکری عمل کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ سیاسی حل کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے باور کرایا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ کے نتیجے میں عالمی معیشت ڈھیر ہو جائے گی۔

اسی طرح سعودی ولی عہد نے خبردار کیا کہ اگر عالمی برادری ایران کو روکنے کے لیے اکٹھا نہ ہوئی تو تیل کی قیمتیں ناقابل تصور حد تک بڑھ جائیں گی۔

یمن کے حوالے سے سعودی ولی عہد نے اس جانب توجہ دلائی کہ اگر ایران حوثی ملیشیا کے لیے اپنی سپورٹ کا سلسلہ روک دے تو یمن میں سیاسی حل آسان ترین ہو جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 14 ستمبر کو سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل تنصیبات آرامکو پر ڈرون طیاروں کے ذریعے حملے کیے گئے تھے۔

ان حملوں سے تیل کی پیداوار بھی کم ہو گئی تھی۔ حوثی ملیشیا نے حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی لیکن امریکہ، یورپی طاقتوں اور سعودی عرب نے حملوں کا ذمے دار ایران کو قرار دیا تھا جبکہ ایران نے حملوں میں ملوث ہونے کے دعوے کو مسترد کردیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں