لاہور (ڈیلی اردو) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ سانحہ ساہیوال کے ریکارڈ میں تبدیلی کی گئی تو تمام افسران جیل کے اندر ہوں گے۔
لاہور ہائیکورٹ میں سانحہ ساہیوال سے متعلق کیس کے دوران یہ ریمارکس چیف جسٹس سردارمحمد شمیم خان نے دیے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ساہیوال آپریشن کا حکم دینے والے ایس پی جواد قمر کو گرفتار کیا گیا؟ سی ٹی ڈی کو ایسے آپریشن کرنے کے لئے کون بھیجتا ہے؟ بتایا جائے کہ حکومت جوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے کیا کر رہی ہے؟
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کیس میں طلبی کے باوجود آئی جی پنجاب کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آئی جی پنجاب کو ذاتی حیثیت میں بلایا گیا تھا،عدالت کے حکم پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا گیا؟
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں بتایا کہ نہ ایس پی کو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی ملزمان کو نامزد کیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سانحہ ساہیوال میں کل 16 لوگ ملوث ہیں لیکن گرفتار صرف 5 کو کیا گیا ہے۔
سرکاری وکیل نے چیف جسٹس کو بتایا کہ ایس پی جواد قمر نے آپریشن کا حکم جاری کیا،جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ وہ ایس پی گرفتار ہے اور کیا ایف آئی آر میں ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے؟
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ حکومت بتائیں کہ سانحہ ساہیوال کو حل کرنا اس حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کے سربراہ کو رپورٹ سمیت ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی بھی ہدایت دی۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 7 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت تک مثبت جواب آنا چاہیے۔
واضح رہے کہ سانحہ ساہیوال میں جاں بحق خلیل کے بھائی جلیل نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ پنجاب حکومت کی بنائی گئی جے آئی ٹی کو کالعدم قرار دیا جائے اور واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔