اسلام آباد (تجزیاتی رپورٹ) 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل (ر) پرویز مشرف کے حکم پر بھاری مینڈیٹ کے منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کو گھر بھیج دیا اور فوج کی مشہور زمانہ ٹرپل ون بریگیڈ کے سپاہیوں نے اپنے ملک کے پارلیمنٹ کو فتح کیا جس کے تصاویر اب بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہیں۔
اس سے پہلے بھی تین دفعہ یعنی اکتوبر 1958ء میں یہی کارنامہ جنرل ایوب خان اور ان کے دوستوں نے، بعد میں جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق نے بھی سرانجام دیا تھا۔
چار مرتبہ ملکی آئین کے پرخچے اپنے ہی جرنیلوں نے اڑائے ہیں، آئین شکنوں کیخلاف آئین کا آرٹیکل چھ بھی موجود ہے جو کہتا ہے کہ جس فرد نے بھی اگرآئین کو معطل، منسوخ کر دیا یا آئین کی معطلی اور منسوخی میں کسی کی مدد کی تو اس کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج کیا جائے گا اور اس جرم کی سزا عمر قید یا سزائے موت ہے۔
مگر بدقسمتی سے پاکستان کی عدالتی تاریخ بھی اس معاملے میں ناکام نظر آرہی ہے۔اس معاملے میں سپریم کورٹ کے ججز نے تاریخ کا دھارا ابھی درست نہیں کیا ہے بلکہ “نظریہ ضرورت” کے تحت جمہوریت اور آئین دشمنوں کو مواقع فراہم کئے۔
پاکستان میں فوجی آمروں نے چار مرتبہ جہموری نظام کو ڈی ریل کیا ہے۔ آخری آمر پرویز مشرف کا انٹرویو ریکارڈ پر ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ملک سے باہر جانے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ان کی مدد کی تھی۔
ملک میں 30 سال سے زیادہ عملًا مارشل لاء کا دور گزرا ہے اور کمزور جمہوری ادوار میں بھی خارجہ و داخلہ سمیت کئی پالیسیز اسلام آباد کی بجائے کسی اور جگہ سے بن کر آتی ہیں۔
ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں سیاست دان کھل کر سلیکٹرز اور سلیکٹڈ کے استعارے تقریروں میں استعمال کرتے ہیں۔
پرویز مشرف نے جو گھنائونا کھیل پاکستانی قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیلا ہے اس کی مثال تاریخ میں ملنا ممکن نہیں،جس کے لئے اس کے اپنے ہی ساتھی اور مشرف کے اس اقدام میں ساتھ دینے والے (سابق ڈی جی ملٹری آپریشنز) جنرل شاہد عزیز کی کتاب پڑھنا ہی کافی ہے۔