عراق: مظاہرین نے ارکان پارلیمان کے گھر نذر آتش کر دیئے

بغداد (ڈیلی اردو/وی او اے) عراق میں حکومت کے خلاف احتجاج 2 ہفتے سے جاری ہے۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق مظاہرین نے منگل کی شب جنوبی صوبے ذی قار میں ارکان پارلیمان کی رہایش گاہوں کو آگ لگا دی۔ اسی طرح ناصریہ کے شمالی علاقے شطرہ میں بھی 3 ارکان پارلیمان کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ جب کہ دارالحکومت بغداد میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب بھی مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان صورت حال کشیدہ رہی۔

مظاہرین نے پلوں کو بند رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا، بالخصوص احرار اور جمہوریہ پل جو بغداد کے وسط میں واقع ہیں، بند رہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق سیکورٹی فورسز نے آنسو گیس کے گولے داغے، جس کے نتیجے میں بعض مظاہرین کا دم گھٹنے لگا۔ ادھر کربلا میں کئی مظاہرین نے صوبائی حکومت کی عمارت پر دھاوا بولنے اور گھیراؤ کی کوشش کی۔ اس دوران پولیس کی فائرنگ اور آنسوگیس سے ایک شہری جاں بحق اور 30 سے زائد زخمی ہوگئے۔

مظاہرین نے جنوبی شہر بصرہ میں ام قصر کی بندرگاہ کی بندش کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ انسانی حقوق کے مبصر ادارے کے مطابق ام قصر کے واقعات میں کم از کم 2 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے علاوہ دھرنا دینے والوں نے تیل کی تنصیبات اور اہم علاقوں کے نزدیک نئے دھرنوں کی دھمکی دی۔ اس کے بعد بدھ کے روز مظاہرین نے جنوبی صوبے ذی قار میں ناصریہ آئل ریفائنری میں داخلے کا راستہ رکاوٹیں کھڑی کر کے بند بھی کر دیا۔ اس ریفائنری کی بندش سے صوبے ذی قار میں تیل کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔

مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے استعمال کیے جانے والے اس کارڈ کا مقصد حکومت کو مستعفی ہونے کی طرف دھکیلنا ہے۔

ادھر عراقی قبائلی شیوخ اور عمائدین نے مظاہرین کے ساتھ شمولیت اور ان کے مطالبات کی تائید کا اعلان کیا ہے۔

یاد رہے کہ اکتوبر کی ابتدا میں شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک تقریباً 300 عراقی ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ مظاہرے موجودہ حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے ہو رہے ہیں، جو مظاہرین کے نزدیک بدعنوان ہے اور غیر ملکی طاقتوں جن میں ایران سرفہرست ہے، ان کے احکامات کی تعمیل میں مصروف ہے۔

عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی مظاہرین سے یہ اپیل کر چکے ہیں کہ وہ اپنی تحریک روک دیں۔ عبدالمہدی کا کہنا ہے کہ مظاہرین کا احتجاج اپنے اہداف حاصل کر چکا ہے اور اب وہ معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ اگر سیاست دان متبادل پر متفق ہو گئے تو وہ اپنا استعفا پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ عبدالمہدی نے کئی اصلاحات کا بھی وعدہ کیا، تاہم عوام کا احتجاج مسلسل جاری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں